1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان کشتی حادثہ، لاشیں واپس لانے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
7 جولائی 2023

یونان جانے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب کر مارے جانے والے پاکستانی مہاجرین کے لواحقین اب بھی اپنے پیاروں کی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس حادثے کو تقریبا ایک ماہ کا وقت ہو چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4TafR
Videostill | Pakistan Wife of missing Pakistan migrant
تصویر: Ali Kaifee/DW

ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن بحیرہ روم میں کشتی حادثے میں مارے جانے والے پاکستانی تارکین وطن کے جسد خاکی ابھی تک وطن واپس نہیں لائے جا سکے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابھی تک صرف 15افراد کی شناخت ہوئی ہے، جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ شناخت اور لاشوں کو پاکستان لانے کے عمل میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے لواحقین کی بے چینی اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لواحقین حکومت پر سست روی کا الزام لگا رہے ہیں جبکہ حکومت ان الزامات کو مسترد کر رہی ہے. واضح رہے گزشتہ ماہ تقریبا ساڑھے تین سو پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے، جن میں زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ مارے جا چکے ہیں۔

لیبیا میں دو کشتیاں ڈوبنے سے درجنوں تارکین وطن ہلاک

بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد، اٹلی میں ہنگامی حالت کا اعلان

حادثے کا شکار ہونے والی اس بد قسمت کشتی میں پاکستانیوں کے علاوہ شامی، افغان، مصری اور دوسرے غیر ملکی بھی تھے۔

جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز بلوچ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ 78 لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں اور یہ کہ یونانی حکام نے اس حوالے سے ایک جوڈیشل انکوائری کا حکم بھی دیا ہے اور بچ جانے والے پاکستانیوں سے انٹرویو بھی کیا ہے۔

اس حادثے کے کچھ دنوں کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا تھا کہ 293 لواحقین نے حکومت سے رابطہ کیا ہے اور نواسی کے قریب لواحقین نے ڈی این اے سیمپل دیے ہیں۔

مہاجرین سے بھری ڈوبنے والی کشتی میں سوار پاکستانی کی اہلیہ

 اضطراب میں اضافہ

لواحقین کا کہنا ہے کہ حکومت کے کام کرنے کی رفتار بہت سست ہے، جس کی وجہ سے ان کے کرب و اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ لواحقین نے حکومت پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ ڈی این اے سیمپل اور رپورٹ کے نتائج کے لیے بھی پیسے طلب کر رہی ہے۔

اس حادثے میں کوٹلی کے ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے اٹھائیس لاپتہ ہوئے ہیں، جن کے بارے میں اب یقین ہو چلا ہے کہ وہ زندہ نہیں بچ سکے ہوں گے۔

کوٹلی کے گاؤں بنڈلی سے تعلق رکھنے والے عابد راجوروی کا کہنا ہے کہ ان کے دو رشتے دار عمران وزیر اور عبد السلام اس حادثے میں ممکنہ طور پہ مارے گئے ہیں۔

عابد راجوروی کا کہنا ہے کہ حکومت کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے یہ رشتہ دار زندہ ہیں یا مر گئے ہیں اور یہ کہ ان کی لاشوں کو کب یہاں لایا جائے گا۔

عابد راجوروی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے لیکن پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی نہ ہی ہماری کوئی مدد کی ہے اور نہ ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہمارے رشتہ داروں کی لاشیں ہمیں کب ملیں گی۔‘‘

ایک اور کشتی سمندر میں ڈوب گئی، کم از کم انتیس تارکین وطن ہلاک

ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندر سے بچا کر اٹلی پہنچا دیا گیا

عابد راجوروی کے مطابق حکام نے ڈی این اے کا نمونہ لیا ہے لیکن نتائج سے ابھی تک اگاہ نہیں کیا، ''ہمارے رشتہ دار روز تھانے جا کر پوچھتے ہیں کہ ڈی این اے کا نتیجہ آیا ہے یا نہیں۔ ان کو یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں آیا، جس سے ان کے اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے او وہ غم سے مزید نڈھال ہو رہے ہیں۔‘‘

حکومتی عدم دلچسپی

پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کے علاقے کھوئی رٹہ سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد ساغر، جو اب کراچی میں محنت مزدوری کے لیے کام کرتے ہیں، کے بھی دو رشتہ دار اس حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے گھر والے بھی بے تابی سے ان کی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ چوہدری محمد ساغر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میرا ایک بھانجا اور ایک پھوپھی کا لڑکا یونان کے حادثے میں ممکنہ طور پر ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکومت نے ہمارے رشتہ داروں سے ڈی این اے لیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی اس مسئلے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔‘‘

چوہدری محمد ساغر کے مطابق حکومت کو لواحقین کے غم کا احساس کرنا چاہیے اور اس معاملے کو تیزی سے حل کرنا چاہیے تاکہ حادثے میں مارے جانے ہونے والوں کی تہجیز و تکفین کا انتظام کیا جا سکے۔

ایسا گاؤں جہاں قوت سماعت و گویائی اہم نہیں

پیسے طلب کرنے کا الزام

شیخوپورہ کے علاقے طاہر آباد سے تعلق رکھنے والے محمد شاذر کا کہنا ہے کہ حکومت لواحقین کے غم کا احساس کیا کرے گی وہ تو ڈی این اے سیمپل کے بھی پیسے مانگ رہی ہے اور یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جب ڈی این اے کی رپورٹ لینے آئیں، تو 80 ہزار روپے ساتھ لے کر آئیں۔

شاذر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا کزن رومیل اکرم اس کشتی میں سوار تھا۔ ہمارے رشتے دار اپنے پیسے سے لاہور گئے۔ کرایہ خرچ کیا۔ وہاں جا کر انہیں ڈی این اے کے سیمپل کے پیسے دینے پڑے اور انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ جب رپورٹ لینے آئیں تو 80 ہزار بھی لے کر آئیے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے جب اس حوالے سے پنجاب حکومت کے ترجمان عامر میر سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا، ''حکومت نے ڈی این اے مفت کرانے کا حکم دے دیا ہے اور اگر کسی سے پیسے لیے گئے ہیں، تو وہ واپس کر دیے جائیں گے۔‘‘

لواحقین سے پیسے لینا چاہیں

 جہاں کئی ناقدین لواحقین سے پیسے لینے کے عمل کو نامناسب سمجھتے ہیں، وہیں حکمراں اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام کے محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ حکومت کو پیسے لینا چاہیں۔

محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان لواحقین کو اس وقت خیال نہیں آیا جب وہ غیر قانونی طور پر اپنے پیاروں کو یورپ بھیج رہے تھے، جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔

دنیا بھر میں جب اس طرح کے حادثات ہوتے ہیں، تو لواحقین ہی تمام اخراجات اٹھاتے ہیں۔ حکومت کے اتنے وسائل نہیں کہ وہ سارے اخراجات برداشت کرے۔ اس لیے ڈی این اے یا لاشوں کو یونان سے لانے کے لیے حکومت کو لواحقین سے پیسے لینے چاہیے ہیں۔‘‘

 حکومت کی رفتار سست نہیں

محمد جلال الدین ایڈوکیٹ اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت سستی سے کام لے رہی ہے، '' ڈی این اے کے سیمپل لینا اور پھر ڈی این اے ٹیسٹ کرانا اور پھر یونانی حکام سے رابطہ کرنا یہ ایک طویل عمل ہے۔ اس میں حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہو رہی بلکہ یونانی حکام کی طرف سے تاخیر ہو رہی ہے۔ حکومت اپنے طور پہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید