1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مودی کا بھارت واقعی 'وشوا مترا' یا 'دنیا کا دوست' ہے؟

7 فروری 2024

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ہندو قوم پرست حکومت کو "وشوا مترا" یا "دنیا کا دوست" قرار دیتے ہیں۔ مودی سنسکرت لفظ 'وشوا مترا' کی اصطلاح ملک بھر میں اپنی حالیہ ریلیوں، جلسوں اور تقاریر میں استعمال کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4c7pw
مودی نے گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر ماکروں کی میزبانی کی تھی
مودی نے گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر ماکروں کی میزبانی کی تھیتصویر: LUDOVIC MARIN/AFP

وزیر اعظم مودی نے ستمبر میں بھارتی پارلیمان میں کہا تھا،"یہ سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ بھارت نے وشوامترا کے طورپر اپنی جگہ بنائی ہے اور پوری دنیا بھارت کو ایک دوست کے طور پر دیکھ رہی ہے۔"

اوپی جندل گلوبل یونیورسٹی میں جندل انڈیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل سری رام چولیانے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مہم گلوبل ساوتھ کی نمایاں آواز بننے کے مودی حکومت کے ارادے کی عکاس ہے۔

انہوں نے کہا، "اس کے پیچھے آئیڈیا یہ ہے کہ بھارت کو ایک آزاد طاقت کے طورپر کھڑا کیا جائے، جو چین سے مختلف، امریکہ سے مختلف اور یورپ سے مختلف ہو، جس میں دوستی، تعاون، بقائے باہمی اور باہمی فائدے کا احاطہ کیا گیا ہو۔"

'مودی اور شی باہمی تعلقات بحال کرنے پر متفق'، چین کا دعویٰ

سن 2023میں نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران بھارت نے اپنے ثقافتی اور سفارتی تعلقات کا مظاہرہ کیا، تاہم اس کے بعد سے بھارتی حکومت کو متعدد سفارتی تنازعات میں الجھتے دیکھا گیا۔

جی 20اجلاس کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت پر کینیڈا کی سرزمین پر سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

دسمبر میں امریکی حکام نے کہا کہ انہوں نے امریکی سرزمین پر ایک امریکی کو قتل کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ پتونت سنگھ پنوں نامی یہ شخص ایک علیحدہ سکھ ریاست کی وکالت کرتا ہے۔ یہ دونوں کیسز زیر تفتیش ہیں۔

ادھر داخلی سطح پر بھارت نے فروری میں میانمار کے ساتھ ملحق اپنی سرحد پر باڑ لگانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی دہلی نے یہ فیصلہ فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد وہاں بڑھتے ہوئے تنازع کے پس منظر میں کیا ہے۔

بھارت کے لیے روسی تیل، باہمی فائدے کی شراکت داری

بھارت کے پڑوسی مالدیپ میں نو منتخب حکومت نے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات کی جانب مزید قدم بڑھاتے ہوئے بھارتی فوجیوں کوملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

دہلی میں تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ہرش پنت کا کہنا ہے، "ماضی میں بھی بھارت کا دنیا کا دوست بننے کا ارادہ تھا لیکن حقیقی صلاحیت نہیں تھی کیونکہ ہم گھریلو مسائل سے نمٹ رہے تھے۔ "انہوں نے مزید کہا کہ"بھارت کی ساکھ ان دنوں زیادہ ہے۔"

انہوں نے مزید کہا "اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا ملک بھارت کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایک موقعے پر ایسا لگتا تھا کہ یوکرین کی جنگ بھارت کے مغرب کے ساتھ تعلقات کو تباہ کردے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔"

مصر کے بھارت کے ساتھ تعلقات دن بہ دن مضبوط ہوتے ہوئے

یوکرین کے خلاف جنگ کے معاملے پر روس سے اختلاف کے باوجود بھارتی رہنماوں نے ماسکو کے خلاف امریکہ کی قیادت میں پابندی کی مہم میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اس کے بجائے نئی دہلی نے رعایتی قیمتوں پرروسی تیل کو قبول کیا، جس کی وجہ سے روس سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔

اکتوبر میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اعلان کیا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات "ہر وقت کی بلند ترین سطح" پر ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ان جذبات کا جواب دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو "غیر معمولی کامیابی کی کہانی"قرار دیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ہندو قوم پرست حکومت کو"وشوا مترا" یا "دنیا کا دوست" قرار دیتے ہیں
وزیر اعظم نریندر مودی اپنی ہندو قوم پرست حکومت کو"وشوا مترا" یا "دنیا کا دوست" قرار دیتے ہیںتصویر: Evelyn Hockstein/EUTERS

گہرے تعلقات

تھنک ٹینک چیتھم ہاوس میں جنوبی ایشیا کے سینیئر فیلو چیٹیگ باجپائی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور امریکہ کی شراکت داری دفاع، ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات کو مزید مستحکم اور گہرے کررہے ہیں۔

یہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف بھارت کے بارے میں ایک طویل عرصے سے امریکی تاثر کی نشاندہی کرتا ہے۔

چین کا 'معیاری نقشہ' اور اس کے خلاف بھارت کا شدید احتجاج

بھارت واحد بڑی معیشت ہے جس کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایران، اسرائیل، روس اور یورپی یونین کے ساتھ گہرے اور سازگار تعلقات ہیں۔ گزشتہ مہینے ہی جے شنکر نے ایران اور روس دونوں ملکوں کا دورہ کیا جب کہ وزیر اعظم موودی نے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی میزبانی کی۔

باجپائی نے کہا، "اس لحاظ سے یہ واضح طور پر ایک وشوا مترا ہے۔ لیکن یہ عملی طورپر مذاکرات کی میز پر ایسے بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کہ"اب جنگ کا وقت نہیں ہے۔"

'پڑوس پہلے' کی پالیسی

سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب کے لیے جنوب ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) ممالک کے رہنماوں کو دعوت دینے کے ساتھ بھارت کی پڑوسی پہل پالیسی کے احیاء کا اشارہ دیا۔

بھارت بنگلہ دیش کے انتخابی نتائج سے خوش کیوں ہے؟

مودی نے نیپال میں اپنی پہلی سارک سربراہی کانفرنس میں اپنی تقریر میں کہا،" میں بھارت کے لیے جس مستقبل کا خواب دیکھتا ہوں وہ ایسا مستقبل ہے جو میں اپنے پورے خطے کے لیے چاہتا ہوں۔"

باجپائی نے کہا کہ گلوبل ساوتھ کے رہنما کے طورپربھارت کے عروج کی طرف سفر کے ساتھ یہ احساس بھی ہے کہ بھارت خطے اور اپنے پڑوس کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہا ہے۔

انہوں نے کہا، "اس کے پڑوس میں تین ممالک آئی ایم ایف کے بیل آوٹ سے بچے ہیں، کچھ ناکام ریاستیں ہیں یا خانہ جنگی کی وجہ سے قریب قریب ناکام ریاستیں ہیں، دیگر وہ مخالف ممالک ہیں جن کے ساتھ آپ کا غیر فعال تنازع ہے۔"

مودی کواڈ کی میٹنگ میں
مودی کواڈ کی میٹنگ میںتصویر: Jonathan Ernst/REUTERS

پن گھٹ کی ڈگر کھٹن ہے

باجپائی کہتے ہیں کہ اگر تنازعات جاری رہتے ہیں تو کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے بھارت کے دباو میں آنے کا امکان ہے۔

انہو ں نے کہا،"ان فورمز پر جہاں چین ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، مثلاً برکس ممالک، جہاں ممالک مغرب مخالف ایجنڈا پورا کر رہے ہیں، میں بھارت الگ تھلگ پڑسکتا ہے۔"

انہو ں نے کہا، "اگر دباو بڑھتا ہے، اگر ہم دیکھتے ہیں کہ آبنائے تائیوان میں کوئی تصادم شروع ہوجاتا ہے یا روس اور امریکہ کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہوجاتا ہے، یا مشرقی وسطیٰ کا تنازع مزید شدت اختیار کرلیتا ہے، تو بھارت کے لیے کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔"

سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینیئر فیلو سوشانت سنگھ نے کہا،" اگر بھارت کا چین کے ساتھ فوجی تنازع ہوتا ہے تو اس سے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگا۔ اس وقت بھارت کو اپنے دوستوں کو پکارنا پڑے گا۔" انہوں نے کہا،" چونکہ جب آپ سب کے دوست ہیں تو پھر آ پ کسی کے دوست نہیں ہیں۔"

سوشانت سنگھ کا کہنا تھا کہ امریکی اور بھارتی اقدار مثلاً انسانی حقوق، جمہوری معیارات، اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے وابستگی جیسے معاملات مودی کے دور میں نمایاں طورپر مختلف ہوگئے ہیں لیکن اسٹریٹیجک وژن اب تعلقات کو مضبوط رکھتا ہے۔

ج ا/ ص ز (مہیما کپور، نئی دہلی)