1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں عورت خوبصورت نہ ہو

24 مئی 2024

جاذب نظر خاتون روزگار یا کسی کام کی غرض سے جب کسی مرد سے رابطہ کرتی ہے تو اسے اکثر ذومعنی میسجز اور ناقابل برداشت فیشل ایکسپریشنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگراس کا واسطہ کسی خاتون پڑ جائے تو جیلسی فیکٹر آڑے آ جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4fxfh
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

المیہ ہے کہ پاکستان میں کسی خوبصورت عورت کے گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہی ہمارے سماج کے کچھ مرد خواتین کی طرف یوں غور سے دیکھتے ہیں اور پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا وہ ان کی کوئی''بچھڑی ہوئی دوست‘‘ ہو یا کسی اور سیارے سے آئی ہوئی ''ایلین‘‘۔ کئی فارغ البال حضرات تو ملازمت پیشہ خواتین کو ان کے آفس تک چھوڑ کر آتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ خواتین ان حرکات سے تنگ نہیں ہوتیں بلکہ زیادہ تر خواتین  نے سیکھ لیا ہے اور اعادہ کر لیا ہے کہ ان اعصاب شکن حالات کے ساتھ ہی جینا ہے۔ اگر وہ لباس اور حلیہ بدل بھی لیں، اپنے آنے جانے کے روٹ اور اوقات تبدیل کر لیں، اپنی جاب تبدیل کر لیں، کچھ بھی کر لیں وہ مردوں کی نگاہوں کا رُخ نہیں موڑ سکتیں۔

انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ گھٹن زدہ معاشرے کے گھٹن زدہ باسی اپنے ہائی فائی اسٹیٹس اسٹینڈرڈ اور مالی حیثیت کے بل بوتے پر مجبور و لاچار خواتین کا استحصال بہت بری طرح سے کرتے ہیں۔ جو کسی کرب و اذیت سے خالی نہیں۔ چند آفس کمپنیوں کے مالکان مجبور خواتین کی زیادہ تعداد بھرتی کرتے ہیں اور پھر انہیں تنخواہ دے کر اپنی ملکیت تصور کرنے لگتے ہیں۔ انہیں یہ زعم ہے کہ ماتحت ملازم خواتین  کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا بدتمیزی کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔

آفس جوائننگ سے پہلے ہی خاتون کی مالی حیثیت کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔ بعدازاں نوکری کے اول دنوں میں اس جاذب نظر خاتون کے لباس پر گفتگو شروع ہوتی ہے پھر ہیر سٹائل پر اور یکے بعد دیگرے اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ یہی وہ فیز ہوتا ہے کہ جس میں خاتون کے ضبط کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اگر خاتون گرین سگنل نہ دے تو اسے متروک سمجھ کر اگلے مہینے نوکری سے برخاست کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ اگر بےبس خاتون گردش ایام کا تذکرہ کرکے نوکری جاری رکھنے کی عاجزانہ درخواست کرے تو پھر بھاری بھرکم اسائنمنٹ دے کر اوقات کار کو جان بوجھ کر بڑھایا جاتا ہے۔ یہ ہراسانی کی کیٹیگری نہیں تو کیا ہے ؟

علاوہ ازیں ٹارچر کرنے کی غرض سے خاتون کو مختلف زاویوں سےگھورنا، فائل کے صفحات پر ذومعنی جملے تحریر کرنا، وقت پر تنخواہ یا ترقی کا لالچ دے کر مجبور کرنا اور انکار کی صورت میں سالانہ کارکردگی رپورٹ کو متاثر کرنا، براہ راست مطلب کی بات پر آنا، سب کے سامنے چھوٹی چھوٹی بات پر بے عزتی کرنا، واٹس ایپ پر نامعقول مواد بھیجنا، پروجیکٹ سکھانے کی غرض سے خواتین کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھنا یہ سب معاملات  بھی ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں۔

مرد تو مرد ایسی خواتین جن کے ہاتھ میں آفس لیڈرشپ کمان ہوتی ہے وہ بھی خوبصورت و مجبور خاتون کو ٹف ٹائم دینے سے نہیں چونکتیں۔ جیلسی فیکٹر آفس کے سازگار ماحول میں آڑے آ جاتا ہے۔ بس پھر بات بات پر کام کی تنقید پنجے گاڑ لیتی ہے۔ نتیجتاً ایسی خواتین سخت ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ نوبت استعفیٰ تک آ جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں دوران ملازمت جب کوئی مرد کسی عورت کو جنسی جملے کا نشانہ بناتا ہے تو وہ عورت پیچھے ہٹنے کو ترجیح دیتی ہے۔ زندگی کی گاڑی کو بریک لگانے میں عافیت سمجھتی ہے۔ اگر اس کے گھر والوں کو پتہ چلے تو وہ اسے جواباً کوئی ایکشن نہ لینے کی تلقین کرتے ہیں اور زندگی محدود کرنے کا درس دیتے ہیں کیونکہ ہماری سوسائٹی میں ملازمت پیشہ خاتون کو ہی بولڈ تصور کرکے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ فلاں جگہ پر اکیلی کیوں گئی تھیں؟ اس طرح کا لباس کیوں زیب تن کیا تھا؟ ضرور اس لڑکی نے کوئی اشارہ دیا ہوگا جب ہی تو مرد نے حرکت کی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔

نہ جانے کیا راکٹ سائنس ہے کہ جاب کرنے والی خوبصورت خواتین کی شکایات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ اگر کوئی خاتون کسی مرد کے خلاف شکایت کی جسارت بھی کرے تو اس پر بلیک میل کر کے دولت سمیٹنے اور سستی شہرت کے لیے جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے۔ یہی ٹھوس وجہ ہے کہ خواتین پولیس اسسٹیشنز کا رخ کرنے سے بھی گھبراتی ہیں کہ اگر شکایت کی تو ان کی بہنوں کے رشتے نہیں ہوں گے یا انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

متاثرہ خواتین کے نزدیک ایسے کیسز کا منظر عام پر آنا صریح بدنامی کا  باعث بنتے ہیں۔ ایک خاتون کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لٹنے کے باوجود خود کو بے قصور ثابت کرسکے۔ قوانین کے مطابق اپنے مقدمے میں مخالف پارٹی کے وکیل کی جانب سے ایسے ایسے تلخ سوالات کا سامنا کر سکے، جو اس کی رہی سہی عزت نفس کا جنازہ بھرے بازار نکال دیں۔

پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون بھی موجود ہے لیکن آگاہی کا فقدان ہے۔ ہراساں کرنے والے کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت سزا یا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

جب خاتون کے ساتھ ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو تو وہ دفتر میں کسی ایسے شخص سے اس بارے میں بات کرے جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہو۔ بہترین حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کسی خاتون سے کوئی بدتمیزی کرے تو وہ شور مچا دے اس کے ساتھ دیگر آوازیں بھی شامل ہو جائیں گی۔

خواتین میں بھی اب خودکفیل ہونے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ اعلی تعلیم کے حصول میں کوشاں ہیں، جس کے تحت انہیں زبردست روزگار کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں خواتین اپنی جہدِ مسلسل پر گامزن ہیں اور آج بھی انہیں لاتعداد مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍