1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرانس فیٹس، انسانی صحت کے خاموش دشمن

سعدیہ مظہر
4 مئی 2024

پاکستان میں صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹس کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کیا عام شہری یہ جانتے ہیں کہ تلی ہوئی اشیاء ان کی صحت پر کیا اثرات چھوڑتی ہیں اور یہ تیل کس طرح خاموش زہر کا کام کر رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/4f7pt
Symbolbild | Frittiertes
تصویر: Zyabich/Pond5 Images/IMAGO

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں آپ کے دل پر چربی چڑھ رہی ہے، آپ کا کولیسٹرول لیول بڑھ رہا ہے، اس لیے اپنی غذا میں چکنائی کم کر دیں۔ یہ چربی، مضر صحت چکنائی یا ٹرانس فیٹ کہلاتی ہے۔ زیادہ ترمصنوعی ٹرانس فیٹ جسے بناسپتی گھی یا ٹھوس چربی بھی کہا جاتا ہے، دراصل سبزیوں کے تیل میں ہائیڈروجن گیس کو شامل کر کے تیار کی جاتی ہے، جو کمرے کے درجہ حرارت میں ٹھوس شکل یعنی ''گھی‘‘ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ تیل اور  بناسپتی گھی نسبتا سستے ہوتے ہیں اور جلد خراب بھی نہیں ہوتے، اس لیے اس سے تیار کی گئی کھانے کی اشیاء زیادہ عرصے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

Symbolbild | Adipositas
58 فیصد پاکستانیوں کا وزن صحت مند حد سے زیادہ ہے تصویر: beyond/beyond foto/picture alliance

ٹرانس فیٹس جسم کو کیسے متاثر کرتے ہیں؟

عالمی اداراہِ صحت کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 58 فیصد پاکستانیوں کا وزن صحت مند حد سے زیادہ ہے اور43.9 فیصد موٹاپے کا شکار ہیں۔ ٹرانس فیٹس موٹاپے کی بہت بڑی وجہ ہیں جبکہ دل کی بیماریوں، ذیابیطس، کینسر، الزائمر کی بیماریوں کے خطرے کو بھی بڑھاتے ہیں۔

گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر کے کوآرڈینیٹر،  منور حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صنعتی طور پر تیار کردہ ٹرانس فیٹس کا سب سے بڑا ذریعہ صنعتی طور پر تیار کردہ بناسپتی گھی ہے، ''عام زندگی میں استعمال ہونے والی مصنوعات جیسے بناسپتی گھی، بیکڈ فوڈز، چاکلیٹ، سموسے، پکوڑے، پراٹھے، بسکٹ، کینڈی، نوڈلز، پاستا اور کئی دیگر الٹرا پروسیس شدہ مصنوعات غذا میں ٹی ایف اے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ رمضان کے دوران استعمال ہونے والی تلی ہوئی غذائیں بھی ٹی ایف اے کا بھرپور ذریعہ ہیں۔‘‘

حکومت کیا کر رہی ہے؟

پاکستان میں موٹاپے اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ڈبلیو ایچ او کی ''کھانے کی اشیاء میں تعین شدہ ٹرانس فیٹ کی مقدار‘‘ کے مطابق ایک ریگولیٹری فریم ورک متعارف کروایا گیا تھا، جس کے  تحت تمام غذائی اشیاء میں ٹرانس فیٹ کو کل چکنائی کے 2 فیصد یا اس سے کم تک محدود کرنا تھا۔

ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد، نیشنل کوآرڈینیٹر، نیوٹریشن اینڈ نیشنل فورٹیفیکیشن الائنس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 2018ء  میں جب دنیا بھر میں ٹرانس فیٹ پر کام شروع ہوا تب پاکستان میں ہر صوبے میں موجود فوڈ اتھارٹیز نے فوڈ آئٹمز میں ٹرانس فیٹ کے حوالے سے اپنے الگ الگ معیارات سیٹ کر رکھے تھے، جس کی وجہ سے انڈسٹری کو فائدہ پہنچا، ''لیکن پھر وزارت صحت نے 2019ء میں کونسل آف کامن انٹرسٹ کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ سب فوڈ اتھارٹیز کے ایک ہی سٹینڈرز بنیں گے اور پاکستان سٹینڈرز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ) پی ایس کیو سی اے)  یہ سٹینڈرز بنائے گی۔  تب بہت سے گھی اور تیل میں ٹرانس فیٹ کی تعداد 10 فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ ہم نے پی ایس کیو سی اے کے بنائے سٹینڈرز پر کام شروع کیا تاکہ 2023ء تک اس مقدار کو 2صد تک لایا جا سکے۔

وزارت صحت اس  وقت بھی بہت سی آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر پالیسی میکنگ اور پبلک اویئرنس پر کام کر رہی ہے تاکہ 2023ء تک کے ٹارگٹ کو دیر سے ہی سہی مگر پورا کیا جا سکے۔

 پالیسی بنانے اور آگاہی پھیلانے کا کام

پاکستان میں اس وقت ڈبلیو ایچ او نا صرف حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ٹرانس فیٹس کے حوالے سے کام کر رہی ہے بلکہ بہت سی سماجی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے فنڈنگ فراہم کر رہی ہے تاکہ پالیسی بنانے کے ساتھ ساتھ آگاہی پھیلانے کی رفتار کو بھی تیز کیا جا سکے۔

سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیئیٹو ایک ایسی ہی تنظیم ہے جس نے اب تک پاکستان بھر سے تقریباﹰ ساٹھ صحافیوں کو ٹرانس فیٹس کے حوالے سے تربیت دی تاکہ قلم کے ذریعے عوام تک اس زہر کے حوالے سے آگاہی کو تیز اور بہتر بنایا جا سکے۔

زبیر فیصل عباسی، اسی آرگنائزیشن میں ڈیویلپمنٹ پالیسی سپیشلسٹ اور پروگرام لیڈ آن فوڈ، نیوٹریشن اور پبلک ہیلتھ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ زبیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سی پی ڈی آئی، اس وقت وزارت صحت، فوڈ اتھارٹیز اور صحت پر کام کرنے والی باقی تمام تنظیموں کے ساتھ مل کر ٹرانس فیٹس کے حوالے سے نا صرف پالیسی لیول پر کام کر رہی ہیں، ''بلکہ ہم نے صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ہے کیونکہ یہ فیٹس ہماری روزمرہ خوراک کا لازمی جز بن چکے ہیں۔‘‘

کم چکنائی والا چیز ، اب دل بھر کے پیزا کھائیں