1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نومولود پاکستانی بچوں کی اموات: مناسب نگہداشت ہر بچے کا حق

عصمت جبیں اسلام آباد
15 اکتوبر 2023

محفوظ پیدائش اور مناسب نگہداشت ہر نومولود انسان کا بنیادی حق تو ہے لیکن پاکستان میں نئے پیدا ہیونے والے بچوں کی طبی دیکھ بھال اور ان میں شرح اموات کے حوالے سے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4XWR6
ہاکستانی شہر پشاور میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے لیبر روم کے باہر کا ایک منظر اور وہاں انتظار کرتے چند حاملہ خواتین کے مرد رشتے دار
ہاکستانی شہر پشاور میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے لیبر روم کے باہر کا ایک منظر اور وہاں انتظار کرتے چند حاملہ خواتین کے مرد رشتے دارتصویر: DW/D. Baber

پاکستان کے دیہی اور نیم دیہی علاقوں میں تو صحت عامہ کی سہولیات بہت ہی کم ہیں۔ خاص طور پر زچگی اور بچوں کی پیدائش کے عمل میں غیر تربیت یافتہ دائیوں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اسی لیے زچگی کے دوران خواتین اور بچوں جبکہ پیدائش کے فوری یا کچھ ہی عرصے بعد نومولود شہریوں کی موت کا بہت خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ریپ کے بعد حمل، اسقاط کی پرخطر کوششیں: جنین کے بعد تیرہ سالہ پاکستانی لڑکی بھی ہلاک

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات چھیالیس بچے فی ایک ہزار بنتی ہے۔ اس وقت 2023ء میں ملکی آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 1.8 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ نئے پیدا ہونے والے بچوں میں سے صرف 69 فیصد کسی تربیت یافتہ نرس، دائی یا طبی کارکن کی موجودگی میں جنم لیتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان میں زچہ و بچہ کی صحت کے لیے دستیاب مالی وسائل کا تعلق ہے، تو عالمی بینک کے مطابق پاکستانی ریاست اپنے ہر شہری کی صحت کے لیے سالانہ صرف 37 امریکی ڈالر کے برابر رقم خرچ کرتی ہے۔ ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق مالی وسائل کی اتنی شدید کمی کی وجہ سے بچوں کی محفوظ پیدائش، نوزائیدہ بچوں کی طبی دیکھ بھال اور زچگی سے گزرنے والی خواتین کی زندگیوں اور صحت کا تسلی بخش تحفظ ناممکن ہے۔

لاکھوں سیلاب زدہ، حاملہ پاکستانی خواتین کو طبی مدد کی ضرورت

پاکستانی صوبہ پنجاب میں کوٹ ادو کی رہنے والی ایک خاتون زاہدہ پروین اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ، اپنے دونوں جڑواں بیٹوں میں سے ایک کو دودھ پلاتے ہوئے
پاکستانی صوبہ پنجاب میں کوٹ ادو کی رہنے والی ایک خاتون زاہدہ پروین اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ، اپنے دونوں جڑواں بیٹوں میں سے ایک کو دودھ پلاتے ہوئےتصویر: Daniel Berehulak/Getty Images

بڑھتی آبادی کا دباؤ اور وسائل کا فقدان

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں لائف کیئر انٹرنیشنل ہاسپٹل سے منسلک گائناکالوجسٹ فزیشن اور انفرٹیلیٹی اسپیشلسٹ فرحت ارشد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے حالات تشویش ناک ہیں۔ سب سے بڑی وجہ آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور وسائل کا فقدان ہیں۔ ماں کی صحت اس لیے بھی اچھی نہیں ہوتی کہ پدر شاہی نظام میں لڑکوں کی صحت کے مقابلے میں لڑکیوں کی صحت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یوں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں 90 فیصد حاملہ خواتین انیمیا کا شکار ہوتی ہیں۔ دوران حمل آئرن کی کمی سے یہ خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے کہ بچہ قبل از وقت پیدا ہو جائے۔ حمل کی مدت پوری ہونے سے پہلے پیدائش نومولود بچوں میں اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔‘‘

پاکستان: سیلاب کے بعد صحت کے بحران کا خطرہ

ڈاکٹر فرحت ارشد نے خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ''زچگی کے دوران ماؤں اور بچوں میں شرح اموات میں کمی کے لیے خاندانی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ ایسی اموات کو محفوظ پیدائش کے عمل سے بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاﹰ جن دور دراز علاقوں میں لوگ ہسپتالوں میں نہیں جا سکتے، وہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعیناتی یقینی بنائی جائے۔ بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ میڑک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات کو نصابی طور پر بھی یہ پڑھایا جائے کہ مرد اور عورت دونوں کا صحت مند ہونا کتنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ فیملی پلاننگ کے شعبے میں مرد بھی بھرتی کیے جائیں کیونکہ پاکستان جیسے پدر شاہی معاشرے میں جہاں تقریباﹰ سبھی فیصلے مرد کرتے ہیں، وہاں خاندانی منصوبہ بندی کوئی خاتون اکیلے بھلا کیسے کر سکتی ہے؟‘‘

اسلام آباد میں لائف کیئر انٹرنیشنل ہاسپٹل کی گائناکالوجسٹ فزیشن اور انفرٹیلیٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر فرحت ارشد ایک نوجوان مریضہ کو درپیش حمل سے متعلق طبی مسائل کی تفصیلات سنتے ہوئے
اسلام آباد میں لائف کیئر انٹرنیشنل ہاسپٹل کی گائناکالوجسٹ فزیشن اور انفرٹیلیٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر فرحت ارشد ایک نوجوان مریضہ کو درپیش حمل سے متعلق طبی مسائل کی تفصیلات سنتے ہوئےتصویر: Ismat Jabeen/DW

سرکاری ہسپتال بمقابلہ مہنگے نجی کلینک

راولپنڈی کے ایک شہری قاسم علی نے حاملہ خواتین کو درپیش طبی مسائل پر بات کرتے ہوئے خود اپنے گھر کی مثال دی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری اور میری بیوی زبیدہ خاتون کی شادی سات سال پہلے ہوئی تھی۔ اب وہ پہلی مرتبہ حاملہ ہے اور ساتویں مہینے میں ہے۔ اس کا حاملہ ہونا بہت علاج کے بعد ممکن ہوا۔‘‘

’مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، مگر شوہر نہیں مانتا‘

قاسم علی کے مطابق، ''ہم دونوں اب بہت خوش ہیں۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ دونوں ڈرتے بھی ہیں کہ زچگی کے لیے کسی سرکاری ہسپتال میں نہ جانا پڑ جائے۔ وہاں حالات بہت برے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی پرائیویٹ کلینک میں ڈلیوری کروانا مالی طور پر بہت زیادہ مہنگا ہونے کے باعث ہمارے بس میں نہیں۔ ہم ابھی سے فکر مند تو ہیں لیکن پوری کوشش ہے کہ کوئی بہتر حل نکل آئے۔‘‘

کراچی میں ایک ہسپتال میں چار نومولود بچے مر گئے

پاکستانی شہر کراچی میں زچہ و بچہ کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایک وارڈ کا اندرونی منظر
پاکستانی شہر کراچی میں زچہ و بچہ کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایک وارڈ کا اندرونی منظرتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقوں میں صورت حال کیا؟

پاکستان میں مجموعی طور پر وفاقی اوو صوبائی حکومتیں اس کوشش میں تو ہیں کہ ملک میں زچہ و بچہ کی شرح اموات کم کی جائے اور ان کوششوں کے باعث حالات میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے۔ تاہم آج بھی پاکستان میں حالت یہ ہے کہ ہر ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 186 زچگی کے دوران طبی پیچیدگیوں کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

قبائلی علاقے، حاملہ خواتین کے لیے سہولیات کا فقدان

جرنلسٹ سیو موومنٹ کی بانی اور پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کی جنوبی پنجاب کے لیے کمپلینٹ آفیسرانیلہ اشرف نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقے کوہ سلیمان کے طویل پہاڑی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں، جہاں پدرشاہی اور سرداری نظام میں کسی بھی عورت کو بس بچے پیدا کرنے والے مشین سمجھا جاتا ہے۔

نومولود بچوں کی ہلاکت، پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟

پاکستان: آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش میں تشویشناک اضافہ

گزشتہ برس پاکستان میں سیلاب کے بعد جب جرنلسٹ سیو موومنٹ کو کوہ سلیمان کے تمن بزدار اور دیگر تمن داری علاقوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے حاجی مورہ تک رسائی ملی، تو وہاں اس تنظیم کے کارکنوں کو سیلاب سے متاثرہ مقامی خواتین نے جو کچھ بتایا، وہ حیران کن بھی تھا اور پریشان کن بھی۔

زچگی کے لیے حاملہ عورتوں کا درختوں سے لٹکایا جانا

جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقوں میں عورتوں کی تولیدی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انیلا اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان سیلاب زدہ خواتین نے ہمیں بتایا تھا کہ وہاں جس عورت کے بچے دس سے کم ہوں، اسے 'ناکارہ‘ سمجھا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کا دوران حمل کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ زچگی کے دوران تو وہ اناڑی خواتین کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ تمن داری علاقہ جات میں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ زچگی سے کچھ ہی دیر پہلے حاملہ خاتون کو بازوؤں اور کمر سے رسی کے ساتھ باندھ کر کسی درخت سے زمین سے کچھ اوپر تک اس لیے لٹکا دیا جاتا ہے کہ بچے کا اپنا جسمانی وزن بھی اس کی پیدائش میں معاون ہو۔ یہ ڈلیوری میں آسانی کے نام پر عین اس وقت کیا جانے والا ایک ایسا دقیانوسی، تکلیف دہ اور پرخطر عمل ہوتا ہے، جب زچہ کو ویسے بھی زندگی اور موت کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘

ان علاقوں میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ حکومت نے بنیادی مراکز صحت تو قائم کیے ہوتے ہیں اور وہاں عملہ بھی تعینات ہوتا ہے، تاہم یہ مراکز اکثر تالہ بند ہی رہتے ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ حاملہ خواتین کی مدد کا عزم

زچگی کے دوران طبی پیچیدگیاں نوجوان خواتین کے لیے زیادہ جان لیوا

اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ فیملی پلاننگ کی سابقہ انچارج اور اب اسی شہر میں اپنا نجی کلینک چلانے والی سیدہ نگہت گیلانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں دوران حمل اور زچگی کے دوران پیچیدگیوں کی وجہ سے نوجوان خواتین میں اموات کی شرح نوجوان عورتوں کی کل اموات کا 15 فیصد بنتی ہے۔ یعنی جوانی میں ہی انتقال کر جانے والی پاکستانی خواتین میں سے 15 فیصد کی موت دوران حمل یا زچگی کے دوران شدید نوعیت کے طبی مسائل کے باعث ہوتی ہے۔ ایسی نسوانی ہلاکتوں کا سبب زیادہ تر انیمیا، ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس کا مرض بھی بنتے ہیں۔‘‘

اسلام آباد میں اپنا ایک نجی کلینک چلانے والی سیدہ نگہت گیلانی
اسلام آباد میں اپنا نجی کلینک چلانے والی سیدہ نگہت گیلانیتصویر: Ismat Jabeen/DW

پاکستان اور بھارت زچہ و بچہ کی اموات میں سر فہرست

نگہت گیلانی نے عمومی سماجی رویوں، پدر شاہی سوچ، معاشرتی محرومی اور پسماندہ علاقوں میں مناسب طبی سہولیات کے فقدان جیسے عوامل پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''پتہ نہیں لوگ کب سمجھیں گے کہ نومولود بچہ لڑکا ہو گا یا لڑکی، اس میں حاملہ عورت کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا۔ میرے پاس کئی ایسی حاملہ لڑکیاں بھی آتی ہیں، جن کے شوہر یا سسرال والے الٹرا ساونڈ ٹیسٹ کروانے اور ماں کے پیٹ میں لڑکی ہونے کی نشاندہی ہوتے ہی ایسی لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین تین ملین کم کیوں؟

’’تو بدسلوکی کا شکار اور اپنے گھر میں ہی نظر انداز کر دی گئی طبی طور پر ایسی کمزور جوان عورتیں صحت مند مائیں اور ان کے بچے صحت مند نومولود کیسے ہو سکتے ہیں؟ اکثر حاملہ خواتین تو گائناکالوجسٹ کے پاس بھی نہیں جا سکتیں۔ کسی کو گھر سے اجازت نہیں ملتی، کسی کے پاس مالی وسائل نہیں ہوتے، کوئی مضافاتی یا دیہی علاقوں کی رہنے والی ہوتی ہے تو کسی کے لیے ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔‘‘

موجودہ صورت حال کا حل کیا؟

سبھی طبی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حاملہ خواتین اور ان کے نامولود بچوں کی اچھی صحت کو یقینی بنانے والی سہولیات مہیا کی جائیں، انہیں غذائیت کی کمی کا سامنا نہ ہو، پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہو تو محفوظ پیدائش کے ذریعے ہر سال ہزارہا پاکستانی ماؤں اور ان کے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

اس کے لیے لیکن صحت عامہ اور عوام کے بنیادی طبی حقوق حکومت کی بڑی ترجیحات میں شامل ہونا چاہییں۔

لیلا بائی، پاکستان کی کمیونٹی مِڈوائف