1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نقش ونگارِ جاوداں

16 اکتوبر 2023

ہندوستان میں مصوری، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ غاروں میں مصوری کی ابتدا اس خطے میں پتھر کے زمانے سے ہی ہو گئی تھی۔ قدیم ہندوستان کی مصوری کو سہہ جہتی بھی کہا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Xa54
Sanober Nazeer
تصویر: privat

پانی پت کے میدان جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر ظہیرالدین بابر نے 1526ء میں برصغیر میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی۔

دلّی، آگرہ اور فتح پور سیکری کی تاریخی مقامات کی سیر کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی درباری محلات کی سرگرمیاں شروع ہونے کو ہیں۔

 بابر کا دور حکومت جنگوں اور فتوحات حاصل کرنے کی کشمکش میں گزرا لیکن اپنی جمالیاتی ذوق کے پیش نظر اس نے فنون لطیفہ کی اہمیت سے روگردانی ہرگز نہیں کی لیکن مصوری کے ضمن میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا گیا۔ہاں البتہ تزک بابری میں بابر نے ہندوستانیوں سے باغات نہ لگانے کا گلہ جابجا کیا اور برصغیر میں کئی خوبصورت باغات بنوائے۔

 دوسرے مغل شہنشاہ ہمایوں کو تخت نشیں ہوئے بہ مشکل پانچ چھ سال ہی گزرے تھے کہ اسے اندرونی بیرونی سازشوں سے بھاگ کر ایران میں پناہ لینی پڑی۔ دس بارہ سال ایران کے فنون لطیفہ خصوصاً ایرانی مصوری نے ہمایوں کو اپنی جانب راغب کیا۔ ہندوستان پر دوبارہ فتح یابی کے بعد ہمایوں کے دور میں ''مغل دبستان مصوری‘‘ کا آغاز ہوا۔

ہمایوں ایران سے اپنے ساتھ مصوروں اور خطاطوں کو بھی لایا، جن میں ’’میر علی تبریزی‘‘ دربارِ ہمایوں میں قابل ذکر نام ہے۔ اسی دور میں ایرانی اور ہندوستانی منی ایچر آرٹ کا ملاپ ہوا، جس کے نتیجے میں مغل منی ایچر  کی معرکتہ آرا مصوری تخلیق ہوئی۔ اس زمانے کے کچھ بڑے مصورعبد الصمد، داسوونت اور باسوان تھے۔

منی ایچر ہے کیا؟

منی ایچر کا مطلب ہے ''چھوٹا "، چھٹی ساتویں صدی عیسوی میں مشرقی ہندوستان میں بدھ مت اور جین مت کی خانقاہوں میں اس فن کے آثار ملتے ہیں۔ قرون وسطی میں کاغذ کے ایجاد کے بعد اس فن نے انڈیا میں لودھی خاندان میں مقبولیت پائی لیکن منی ایچر کو بام عروج پر مغل سلطنت کے حکمرانوں نے پہنچایا۔

یہ فن عام پیٹنگز سے قدرے مختلف ہے۔ مغل دور کی یہ تصاویر بارہ پندرہ انچ کے کاغذ پر آبی رنگوں سے بنی ہوئی ںہیں۔ منی ایچر دو جہتی (Two dimensional) ہوتی ہیں اور یک رخی بھی۔ آپ پوری مغل منی ایچر دیکھ لیں تمام شبیہ یک رخی ہی ملے گی۔ دوسری جو اس آرٹ میں ایک کمی محسوس ہوتی ہے وہ تناظر اور گہرائی کا نہ ہونا: یعنی سائز میں سب برابر نظر آتے ہیں چاہے وہ قلعہ کی فصیل ہو یا ایک بادشاہ یا ایک گھوڑا۔

قطع نظر کچھ خامیوں کے یہ فن اپنی باریکیوں اور رنگا رنگی سے بھرپور ہونے کی بنا پر نفاست کا بے حد متقاضی تھا جسے مغل دور کے مصوروں نے بجا طور پر نبھایا۔ منی ایچر پینٹنگز کو بنانے کے لیے گلہری کی دُم سے بُرش بنایا جاتا، جبکہ چار کاغذوں کو چسپاں کر کے ایک کاغذ یا کینوس بنتا جسے "وصلی" کہا جاتا تھا۔

میر علی تبریزی نے ہمایوں کے حکم پر ''داستان امیر حمزہ‘‘ کو تصویری شکل دی۔ اس میں کُل 1375 تصاویر ہیں۔ اس سے پہلے شبیہ نگاری کو ایسا عروج حاصل نہیں ہوا تھا۔ چونکہ زرمیہ قصہ و حکایات سے طبیعت اکتا چکی تھی اسی لیے ان کی جگہ شبیہ نگاری، منظر کشی اور درباری تصاویر نے لے لی۔

اکبر کے عہد میں مصوری کے کئی شاہکار پایہ تکمیل کو پہنچے، جن کی ابتدا ہمایوں نے کی تھی۔ اکبر نے مصوری میں تیز رنگوں اور سہ جہتی روش کو اپنایا۔ اکبری عہد کی یادگار ''تیمور کا گھر‘‘ جسے استاد عبدالصمد نے بنایا آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ واحد تصویر ہے، جس کا سائز عام مغل منی ایچر سے بڑا ہے۔ اسی لیے اس میں امیر حمزہ کی تصویروں کے اوصاف بھی نمایاں ہیں۔ اکبر نے اپنے دربار میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی پزیرائی کھلے دل سے کی۔ اس لیے کئی ہندو مصوروں نے مغل منی ایچر میں کمال کی مصوری کی۔

رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئين کاری اکبری عہد کا انمول کارنامہ مانا جاتا ہے۔

اکبر کا جانشین جہانگیر خود بھی مصور تھا اور اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے یہ کمال حاصل تھا کہ کسی بھی تصویر کو دیکھ کر بتا دیتا کہ کس کس مصور نے اسے بنایا ہے۔ جہانگیر کے درباری مصور منصور کو اس نے''نادرالعصر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ منصور کو جانوروں اور حیوانوں کی تصاویر بنانے میں یدطولی حاصل تھا۔ وہ رنگ جامع اور عمیق جبکہ اس کا قوت اظہار اچھوتا تھا۔ جہانگیر دور میں بشننداس اور منوہر  کی مصوری کا بھی خوب چرچا تھا۔

جبکہ جہانگیری مصور ''استاد فرخ بیگ" بھی مغل مصوری میں ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے شبہہ نگاری میں کمال کی مصوری کی۔

شاہ جہاں کے دور میں عمارتوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی گئی۔ لیکن مصوری میں شاہ جہاں کی کئی تصاویر کے علاوہ اس کے وزیر ''سعد اللہ خان‘‘ کی تصویروں کا کوئی ثانی نہیں۔

شاہ جہاں کے دربار کی ایک تصویر بیرونی منظر سے شروع ہو کر اس  کے تخت تک جاتی ہے جبکہ ارد گرد شیر اور گائے ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے دکھائے گئے ہیں۔یہ تصویر بذات خود مغل مصوری کی ایک تاریخ ہے۔

رنگوں کا امتزاج، سونے کے تاروں اور قیمتی پتھروں کا کٹاؤ جڑاؤ ایسے تازہ اور پختہ ہیں کہ دیکھنے والے کی عقل دنگ رہ جائے۔

اورنگزیب کا زمانہ مغل سلطنت کے زوال کا آغاز تھا یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا۔اس کے دور حکومت میں فنون لطیفہ کا مستقبل انحطاط کا شکار ہو کر دم توڑتا چلا گیا۔ جبکہ مقالات عبدالرحمن چغتائی میں اورنگزیب کی غلط پالیسیوں کی بے جا پردہ پوشی کی گئی ہے۔

جہانگیر کے ہی دور میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تجارتی معاہدہ بھی طے پایا تب کسی کو اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ یہ کمپنی اپنے ملک سے کئی گنا بڑے، دنیا کے امیر ترین ملک اور اس کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی پر براہ راست راج کرے گی۔

انیسویں صدی کے اوائل میں ایک انگریز افسر جان اسمتھ نے اورنگ آباد کے شمال مغربی پہاڑوں کے بیچ جھاڑیوں اور خود رو درختوں میں گھرے اجنتا کے غاروں کو دریافت کیا۔

چٹانوں کو کاٹ کر بنائے گئے یہ 30 غار گپتا عہد میں، بدھ مذہب کی عظمت، مہاتما بدھ کی زندگی کے حالات اور مذہبی افکار و خیالات کے ترجمان تھے، جو بدھ مت کے زوال کے بعد دنیا کی نظروں سے اوجھل تھے۔ غاروں کی حالت خستہ ہونے کے باوجود چٹانوں پر بنے نقش و نگار اور تصاویر نایاب تھے۔

اجنتا کے غاروں کا یہ مجموعہ مختلف زمانے میں بنا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق پہلا مجموعہ قبل مسیح کا تو دوسرا بعد از مسیح کا ہے۔ الغرض اجنتا کے ان غاروں کی نقاشی قابل دید ہے، جو تیز رنگوں سے بنائی گئی ہے اور تصویریں ہوش ربا مناظر پیش کرتی ہیں۔ نقاشی میں استعمال کیے جانے والے رنگ سرخ، زرد، بھورے، کالے یا سفید اور سبز ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی رنگ کو نقاشی یا مصوری میں دوبارہ استعمال نہیں کیا گيا تھا۔ خاص طور سے خواتین کی جابجا تصاویر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عورت کا مرتبہ اس دور میں بلند تھا۔

اجنتا کے ایک وسیع ہال میں مہاتما بدھ کا ایک بڑا مجسمہ بنا ہوا ہے۔ دیواروں پر مہاتما بدھ کے پچھلے جنموں کی کہانیاں تصویروں کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔ چھتوں پر نازک بیل بوٹوں کے نقش و نگار ہیں۔

قدیم ہندوستانی مصوری سہہ جہتی ہے۔ اجنتا کے غاروں کی نقاشی، مصوری میں خطوط کشی قابل دید ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصویریں ابھی بول پڑیں گیں۔ مجسمہ سازی کا فن بھی عروج پر نظر آتا ہے۔ چٹانوں کو کاٹ کر مورتیاں اور مجسمے اس مانند بنائے گئے کہ صرف جان ڈالنے کی دیر ہو اور مورتیاں ناچنے لگیں۔ ایسی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی ہے۔

ہندوستان میں مصوری، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ غاروں میں مصوری کی ابتدا اس خطے میں پتھر کے زمانے سے ہی ہو گئی تھی۔ بھیمبٹیکا کے غاروں میں انسانی تصویر کشی کے شواہد ملے ہیں۔اجنتا الورا کے غاروں سے تو اب پوری دنیا ہی واقف ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں سینکڑوں غار موجود ہیں، جن میں باغ غار، جوگیمارا غار، لینادری غار، سیتنانوسال غار، بادامی غار اور ساسپول غار قدیم مصوری سے مزین ہیں۔ یہ پینٹنگز اس بات کا ثبوت ہیں کہ نقش نگاری، مصوری اور سنگ تراشی ہندوستان کا تاریخی ورثہ ہیں۔

بھارت یاترا میں خاص طور سے تامل ناوڈ جانے کا بھی قصد کیا کہ مہابلی پورم کے دراوڑی فن مصوری اور مجسمہ سازی دیکھنا ایک خواب تھا۔ جیسا کہ اجنتا الورا کی پینٹنگز اور مجسمے بدھ اور جین مت کی دور کی یادگاریں ہیں بالکل اسی طرح یہاں کا آرٹ ہندو مت کے دیوی دیوتاؤں پر مشتمل ہے۔ چنئی سے غالباً کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر تاریخی شہر ''مہابلی پورم‘‘ کے ساحلی اور غار کے مندروں اور چٹانوں پر کندہ راماین اور مہابھارت کی تصویری کہانیاں دیکھ کر آپ خود کو بھی انہی کہانیوں کا ایک جیتا جاگتا دیومالائی کردار تصور کرنے لگتے ہیں۔

ساتویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والے اس شہر میں برہما، وشنو اور شو کے مندروں کے آثار زیر سمندر موجود ہیں، ماسوائے ایک جو ساحل پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایستادہ ہے۔ اس ساحلی مندر کے اطراف چٹان سے بنے مجسموں کی خوبصورتی اس وقت کے پالوا حکمرانوں کے فنی ذوق کی عکاسی کرتی ہے۔

جبکہ مہابلی پورم کے رتھا غار مندروں کو پالوا بادشاہ نرسمہا نے 7ویں اور 8 ویں صدی میں تعمیر کیا تھا۔ رتھوں کی شکل کے مندروں میں ہزاروں دیوی دیوتاؤں کے مجسمے موجود ہیں، جن کو چٹانیں کاٹ کر بنایا گیا۔

شہر میں گھومتے ہوئے آپ خود کو ڈیڑھ ہزار سال کے قدیم ہندوستان میں پاتے ہیں۔ چٹانوں پر حد نگاہ تک ایسی نایاب مجسمہ سازی اور سنگ تراشی دیکھنے کو ملتی ہے، جن میں ہندو مت کی دیومالائی کہانیاں سموئی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔

برصغیر کا قدیم آرٹ ہو یا ایرانی، ترک اور افغان حکمرانوں کے ملاپ سے تخلیق کیا گیا مغل منی ایچر ہو، ہر آرٹ کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں، اس کے سحر میں کھو جانا کچھ غلط تو نہیں اور نوسٹالجک ہو جانا بھی ایک قدرتی امر ہے۔

کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے

کہ ہم اسی مٹی، اسی تہذیب کے باسی رہے ہیں جس کو جھٹلانا ہم نے قومی فریضہ بنا لیا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin  Snober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔