1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نارویجین ڈرامہ نگار جون فوسے نے ادب کا نوبل انعام جیت لیا

5 اکتوبر 2023

سویڈش اکیڈمی کے مطابق 64 سالہ ڈرامہ نگار کو ناقابلِ بیان موضوعات کو اپنے اختراعی ڈراموں اور نثر کے ذریعے آواز دینے پر انعام سے نوازا گیا۔ فوسے کے مطابق ان کی تحریریں انسانیت کے بارے میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4XAPP
Literaturnobelpreis 2023 / Jon Fosse
جان فوسےتصویر: Jessica Gow/TT/AFP

ناروے سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار جون فوسے نے رواں برس کے لیے ادب کا نوبل انعام  جیت لیا۔ فوسے کے ڈرامے دنیا میں ان کے کسی بھی ہم عصر ڈرامہ نگار کے مقابلے میں سب سے زیادہ اسٹیج کیے جا چکے ہیں۔ ان کا موازنہ کبھی کبھی نوبل انعام یافتہ ڈرامہ نگار سیموئیل بیکٹ سے بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا کام کم دورانیے اور ایک ایسی سادہ زبان پر انحصار کرتا ہے جو تال، راگ اور خاموشی کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتی ہے۔

نوبل انعام عطا کرنے والی سویڈش اکیڈمی نے جمعرات کو کہا کہ اس 64 سالہ نارویجین ڈرامہ نگار کو ان کے اختراعی ڈراموں اور نثر کے لیے اعزاز دیا گیا، جو ناقابلِ بیان موضوعات کو آواز دیتے ہیں۔ ’’فوسے کی تحریر کو مواد سے زیادہ اس کی شکل سے بیان کیا جاتا ہے، جہاں جو کچھ نہیں کہا جاتا ہے وہ اکثر کہے گئے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔‘‘

Literaturnobelpreis 2023 / Buchcover Jon Fosse
فوسے کا ادبی کام مختلف انواع پر محیط ہے اور اس میں ڈرامے، ناول، شعری مجموعے، مضامین، بچوں کی کتابیں اور تراجم شامل ہیںتصویر: Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images

 فوسے نے ایک بیان میں کہا، ''میں جذبات سے مغلوب اور شکرگزار ہوں۔ میں اس نوبل انعام کو ایک ایسے ادب کے لیے ایوارڈ کے طور پر دیکھتا ہوں جس کا پہلا اور اہم مقصد بغیر کسی اور بات کے ادب ہونا ہے۔‘‘ ناروے کے پبلک براڈکاسٹر این آر کے سے بات کرتے ہوئے فوسے نے کہا کہ وہ 'حیرت زدہ ہیں اور نہیں بھی‘

نوبل کمیٹی کے چیئرمین اینڈرس اولسن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ فوسے کو ان کی جذبات ابھارنے کی صلاحیت، سمت کا تعین کھو کر الوہیت کے قریب پہنچ جانے اور ایک گہرے تجربے تک رسائی فراہم کرنے والے ایک اختراع کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کے بڑے کاموں میں 'بوتھ ہاؤس‘ اور 'میلانکولی‘شامل ہیں۔

جیوری نے نوٹ کیا کہ فوسے کا نارویجن نینورسک، جو کہ ناروے کی تحریری زبان کی ایک شکل ہے میں لکھا گیا ادبی کام مختلف انواع پر محیط ہے اور اس میں ڈرامے، ناول، شعری مجموعے، مضامین، بچوں کی کتابیں اور تراجم شامل ہیں۔ اولسن نے مزید کہا، ''وہ آج دنیا میں سب سے زیادہ پرفارم کیے جانے والے ڈرامہ نگاروں میں سے ایک ہیں، وہ اپنے نثر کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔‘‘

زاتی زندگی اور شخصیت

مغربی ناروے کے فیورڈ کے درمیان پیدا ہونے والے فوسے کو عام طور پرسیاہ لباس زیب تن کیے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے خاندان میں پروان چڑھے جو پروٹسٹنٹ مسیحوں کے ایک فرقے لوتھرانزم کی ایک سخت شکل کا پیروکار تھا۔ تاہم فوسے نے بعد میں خود کو ملحد قرار دے کر اس فرقے کی پیروی سے بغاوت کی۔

Jon Fosse / Literaturnobelpreis 2023
فوسے کا کہنا ہے کہ وہ میں لفظ کے روایتی معنی میں کرداروں کے بارے میں نہیں بلکہ انسانیت کے بارے میں لکھتے ہیںتصویر: Evan Agostini/Invision/AP Photo/picture alliance

وہ 2013 میں مسیحت کے کیتھولک فرقے کے پیروکار بن گئے۔ اس کی تازہ ترین کتاب، 'سیپٹولوجی‘ ایک نیم سوانح عمری اور ایک عظیم تحریر ہے۔ اس کے سات حصے ایک ایسے شخص کے بارے میں تین جلدوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جو اپنے آپ کے دوسرے ورژن سے ملتا ہے۔ اس کی تیسری جلد کو 2022 کے بین الاقوامی بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک مصنف کی حیثیت سے جدوجہد کرتے ہوئے فوسے سے ایک ڈرامے کا ابتدائیہ لکھنے کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے ایک بار فرانسیسی تھیٹر کی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''میں جانتا تھا، میں نے محسوس کیا کہ اس قسم کی تحریر میرے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘

انہوں نے تحریر کی اس صنف سے اتنا لطف اٹھایا کہ پورا ڈرامہ ہی لکھ دیا، جس کا عنوان تھا 'کوئی آنے والا ہے‘ اس ڈرامے کو 1999 میں پیرس میں اسٹیج کیا گیا، جس سے فوسے کی بین الاقوامی سطح پرپذیرائی ہوئی۔ اس کے بعد 1994 میں اپنے اگلے ڈرامے 'ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے‘ نے ان کی شہرت کو دوام بخشا۔ فوسے کے نارویجن پبلشر Samlaget کے مطابق ان کے ڈرامے دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ اسٹیج کیے جا چکے ہیں۔ ان کے کام کا تقریباً 50 زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

 فوسے نے 2003 میں فرانسیسی اخبار لی مونڈے کو بتایا تھا، ''میں لفظ کے روایتی معنی میں کرداروں کے بارے میں نہیں لکھتا۔ میں انسانیت کے بارے میں لکھتا ہوں۔‘‘

ش ر /ر ب (اے ایف پی)

ادب کے نوبل انعام سے متعلق تین دلچسپ حقائق