1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میٹھی عید کڑوی کیوں لگتی ہے؟

8 اپریل 2024

بڑوں کے لیے عید خوشی سے زیادہ بوجھ بن چکی ہے۔جو پہلے عید کے ہر دن کے لیے نیا جوڑا بناتے تھے اب دو یا ایک ہی بنا پاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایک جوڑا بھی نہیں بناتے کہ پہلے سے پڑا ہوا ہی کوئی جوڑا پہن لیں گے۔

https://p.dw.com/p/4eWzB
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ غالباً وہ ایسا اس لیے کہتے ہیں کہ بچوں کو عید کی تیاری کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ ان کے کپڑے، جوتے اور اسیسریز ان کے کہنے سے پہلے ہی تیار ہو جاتی ہیں۔ عید کے دن وہ میٹھی سویاں کھاتے ہیں، بڑوں سے عیدی وصول کرتے ہیں اور پھر اس عیدی سے اپنی پسند کی اشیاء خرید کر خوشی مناتے ہیں۔

دوسری طرف بڑوں کے لیے عید خوشی سے زیادہ بوجھ بن چکی ہے۔جو پہلے عید کے ہر دن کے لیے نیا جوڑا بناتے تھے اب دو یا ایک ہی بنا پاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایک جوڑا بھی نہیں بناتے کہ پہلے سے پڑا ہوا ہی کوئی جوڑا پہن لیں گے۔

عام بازاروں میں خواتین کے ایک مناسب سے جوڑے کی کم از کم قیمت پانچ ہزار روپے ہے۔ اس پر لگنے والی لیسوں کی قیمت اور درزی کے پیسے بھی شامل کر لیں تو معاملہ آٹھ ہزار سے اوپر چلا جاتا ہے۔ برانڈز کا حال ایسا ہےکہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔

بیرونِ ممالک پینٹ الگ خریدنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ پہننے کے لیے قمیض الگ۔ تاہم ان کے رنگ اور ڈیزائن ایسے ہوتے ہیں کہ ایک پینٹ کے ساتھ مختلف قمیضیں پہنی جا سکتی ہیں اور ایک قمیض مختلف رنگوں اور انداز کی پینٹوں کے ساتھ پہنی جا سکتی ہے۔ ہمارے برانڈز نے غالباً ان کی نکل میں شلوار، قمیض اور دوپٹے الگ الگ بیچنے شروع کر دیے ہیں۔

کل ایسے ہی ایک برانڈ کے آئوٹ لیٹ پر کپڑے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ چار ہزار کا لال رنگ کا ٹرائوزر کس قدر استعمال ہو سکے گا۔ کیا میرے پاس موجود ہر لال رنگ کی قمیض کے ساتھ یہ چل جائے گا؟ کیا دو تین بار دھونے کے بعد بھی اس کا رنگ اور انداز ایسا ہی رہے گا؟

اس کے ساتھ کی قمیض کی قیمت آٹھ ہزار تھی۔ دوپٹہ الگ تین ہزار کا مل رہا تھا یعنی پورا جوڑا چودہ ہزار کا تھا۔

جہاں تینوں چیزیں اکٹھی سوٹ کی صورت میں فروخت کی جا رہی تھیں وہاں قیمتیں اسی طرح چودہ پندرہ ہزار روپے سے شروع ہو رہی تھیں۔

بچوں اور مردوں کے کپڑوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ قیمت جتنی زیادہ معیار اتنا کم۔ کپڑا ہاتھ میں پکڑتے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ دو چار بار سے زیادہ استعمال نہیں ہو پائے گا۔ پھر اس کے لیے اتنی زیادہ رقم کیوں ادا کی جائے۔ پھر بھی عید کا خیال کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ خرید ہی لیا جاتا ہے۔ 

عید کا سسرال سے بھی انوکھا تعلق ہے۔ دونوں خاندانوں کے درمیان شتہ طے پاتے ہی لین دین کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ عید کے موقع پر ایک دوسرے کو عیدی بھجوائی جاتی ہے جس میں لڑکے یا لڑکی کے کپڑے جوتے، اسیسریز کے علاوہ نقد رقم، مٹھائی کے ٹوکرے اور جانے کیا کچھ شامل ہوتا ہے۔ بھلا ہو انسٹاگرام اور پن ٹرسٹ کا اب یہ عیدی تھیلوں کی بجائے نیٹ اور ربن سے سجی لکڑی کی ٹوکریوں یا ٹرے میں بھیجی جاتی ہے جو الگ سے ایک خرچہ ہیں۔

جو سسرال میں موجود ہوں انہیں میکے کی طرف سے عیدی آنے کا انتظار رہتا ہے، اپنے لیے نہیں بلکہ سسرال میں اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے۔ عیدی آئے گی تو سسرال میں گردن اکڑا کر چلا جائے گا ورنہ شرمندگی محسوس کی جائے گی یا طعنے سننے پڑیں گے۔ موجودہ معاشی حالات میں لوگ اپنی بیاہی بیٹیوں کی عیدیاں کس طرح تیار کرتے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کنواری کھائے روٹیاں اور بیاہی کھائے بوٹیاں۔

بوٹیوں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو عید پر بننے والے کھانوں کی بات بھی ہو جائے۔ عید ہو اور دعوتی کھانے نہ بنیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عید کے قریب ان کھانوں کے اجزاء رعائیتی قیمتوں پر فروخت کی جائیں تاکہ سب عید کے دن اپنی پسند کے پکوان بنا سکیں۔لیکن ہمارے ہاں رمضان سے پہلے ہی ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت لاہور میں گائے کا گوشت آٹھ سو روپے کلوگرام اور مرغی کا گوشت ساڑھے چھ سو روپے کلوگرام مل رہا ہے۔ پیاز، ٹماٹر، لہسن، ادرک، ہری مرچیں، ہرا دھنیا اور پودینہ جو ایسے کھانوں کے لازمی اجزاء ہیں ان کی قیمتیں بھی عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ پیاز کی قیمت اس وقت تین سو روپے کلوگرام کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے کلوگرام فروخت ہو رہے ہیں۔ کچھ دنوں میں ان کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔

پاکستان میں ہر سال رمضان اور عیدین کے قریب ایسے ہی ہوتا ہے۔ لوگ پھر بھی عید مناتے ہیں۔ منانی بھی چاہیے۔ یہی ہمارا تہوار ہے۔ تاہم، اس تہوار کو عوام کے لیے خوشی کا باعث ہونا چاہیے نہ کہ مجبوری اور پریشانی کا۔ کچھ کام تو حکومت کر سکتی ہے جیسے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول، عوامی جگہوں پر سکیورٹی کی دستیابی، اور عید کے دنوں میں ہونے والی کسی بھی قسم کی بدنظمی ہونے کے امکانات کو روکنے کے اقدامات۔ تاہم، کچھ کام عوام کو بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ مخواہ کے تکلفات میں پڑنے کی بجائے سادگی کی طرف لوٹیں۔ دوسروں کے حالات جانتے ہوئے ان پر بوجھ نہ ڈالیں۔ فضول رسموں سے گریز کریں اور عید کی خوشیوں کو میٹھا ہی رہنے دیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔