1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'مس انفارمیشن' سے خطرات والے ملکوں میں بھارت سر فہرست

جاوید اختر، نئی دہلی
25 جنوری 2024

ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی گلوبل رسک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت ان ملکوں میں سرفہرست ہے جنہیں غلط اور گمراہ کن معلومات میں اضافے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ اس سے سماجی خلیج بڑھنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4bemE
رپورٹ کے مطابق غلط اور گمراہ کن اطلاعات سے سماج میں دراڑیں پڑنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہے
رپورٹ کے مطابق غلط اور گمراہ کن اطلاعات سے سماج میں دراڑیں پڑنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Goldman

یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارت میں اگلے چند ماہ کے دوران عام انتخابات کے علاوہ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف حکمراں جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر "مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن" کا غیر معمولی استعمال کرتی ہیں۔

رپورٹ میں مختلف قلیل مدتی اور طویل مدتی خطرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں غلط معلومات اور گمراہ کن معلومات کو اگلے دو سالوں کے دوران دس طویل مدتی اور قلیل مدتی خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس سے سماج میں دراڑیں پڑنے اور پولرائزیشن کا سبب بننے کا خدشہ ہے۔

بھارت: حزب اختلاف کا حکومت پر فون ٹیپ کرنے کا الزام

رپورٹ کے مطابق جن دیگر ملکوں کو ''مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن" کا خطرہ ہے ان میں پاکستان، سعودی عرب، امریکہ، فرانس، آئرلینڈ، چیک جمہوریہ اور ایل سیلواڈور شامل ہیں۔

 رپورٹ، جو کہ عالمی خطرات کو سمجھنے کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی پہل کا حصہ ہے، کا مقصد بڑے خطرات کی نشاندہی کرنا اور ان سے نمٹنے کے ممکنہ طریقوں کا پتہ لگانا ہے۔یہ دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ہزار ماہرین کی آراء کی بنیاد پر تیا ر کی گئی ہے۔

رپورٹ میں اقتصادی غیر یقینی کی صورتحال، سماجی پولرائزیشن اور پناہ گزینوں کے بحران کو کچھ دیگر اہم قلیل مدتی خطرات کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جبکہ ماحولیاتی بحران کو سب سے اہم طویل مدتی خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

بھارت فیک نیوز کی آماج گاہ کیسے بنا؟

انتخابات غلط اطلاعات کے فروغ کا بڑا ذریعہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات غلط معلومات کو پھیلانے کے لیے ایک بہت بڑاذریعہ بنیں گے۔

خیال رہے کہ اگلے کچھ عرصے میں بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، پاکستان، برطانیہ اور امریکہ جیسے اہم ملکوں میں انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں دنیا کی تقریباً تین ارب آبادی حصہ لے گی۔

رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کا وسیع پیمانے پر استعمال نئی حکومتوں کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ شہری بدامنی، احتجاج اور نفرت انگیز جرائم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

'غلط معلومات' پھیلانے پر میٹا کو یورپی یونین کی تنبیہ

رپورٹ میں صورت حال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غلط معلومات نہ صرف لوگوں کی سیاسی وابستگیوں کو متاثر کرسکتی ہے بلکہ حقائق کے متعلق ان کی سمجھ کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ سچائی کی تعریف متنازع ہوجائے گی اور کچھ رہنما، گروہ اور جماعتیں غلط بیانیوں کو درست میں تبدیل کرسکتی ہیں۔

رپورٹ میں بھارت کی بی جے پی حکومت کے دباو میں یو ٹیوب اور ٹوئٹر سے بی بی سی کے گجرات فسادات سے متعلق ڈاکیومنٹری کے لنک کو ہٹانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اقدام غلط معلومات پھیلانے کے سیاسی ایجنڈے میں سوشل میڈیا کی شمولیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

ٹوئٹر ڈس انفارمیشن کے خلاف کوششیں تیز کرے، یورپی یونین

رپورٹ میں غلط معلومات کے بڑھنے اور ممالک کے زوال پذیر پریس فریڈم انڈکس کے درمیان ممکنہ تعلق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ خیال رہے کہ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت گزشتہ سال 180ملکوں میں 161ویں نمبر پر تھا۔

جعلی خبریں کیسے پہچانی جاسکتی ہیں؟