1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارچ کی آٹھ تاریخ اتنی بھاری کیوں؟

8 مارچ 2022

پدرسری سماج کی بدقسمتی ہی کہہ لیں کہ مارچ کا مہینہ ہر سال آتا ہے۔ پھر مارچ کے مہینے میں آٹھ تاریخ بھی ہر بار آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی آ جاتا ہے کہ آخر آٹھ مارچ کو ہی عورتوں کو اپنے حقوق کیوں یاد آتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/489W4
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

آٹھ مارچ محض ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ یہ ایک علامت ہے۔ یہ علامت ہے اس جدو جہد کی، جو عورتوں نے ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے کی تھی۔ ووٹ کے حق کا مطلب بھی محض کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ بننا نہیں تھا بلکہ یہ ایک دعوی تھا کہ ریاست میں ہم عورتوں کا شہری درجہ مردوں سے کسی طور کم نہیں ہے۔

 آٹھ مارچ کی یہ علامت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اب تک جو ملا ہے وہ ایک جدو جہد کا نتیجہ ہے اور مزید جو رہ گیا ہے وہ بھی اسی جد و جہد سے ملے گا۔ یہ یاد اِس دن پوری دنیا کی عورتوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی نقطے پر کھڑا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

دوسرا یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ روڈ پر پلے کارڈ اٹھانے سے کیا مسائل حل ہو جائیں گے اور عورتوں کو سارے حقوق مل جائیں گے؟ تو بھئی بات یہ ہے کہ مسائل حل کرنا عید یا تہوار منانے کی طرح نہیں ہوتا کہ ایک دن چاند نظر آیا اور دوسرے دن عید ہو گئی۔ ہر سماج ایک تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے اور کوئی بھی عمل تبدیلی کا لازمی جز ہوتا ہے۔

 لیکن عمل کی رفتار کیسی ہو گی اس کا تعین سماج میں رہتا ہوا فرد کرتا ہے۔ عورت مارچ کے لیے نکلے ہوئے لوگ بھی کچھ اور نہیں کررہے ہوتے، وہ دراصل جدو جہد کے رفتار میں ایک تسلسل قائم کر رہی ہوتی ہیں تاکہ یہ جدو جہد مزید تیز ہو۔

سب سے پہلا اور بنیادی حق زندہ رہنے کا حق: پہلے کے دور میں جب لڑکی پیدا ہوتی تھی تو اس کو نحوست سمجھا جاتا تھا اور بچی کو مار دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ابھی کل ہی میانوالی میں مبینہ طور پر ایک باپ نے سات ماہ کی بچی کو قتل کر دیا ہے۔ یقین کریں تاریخ کے یہ سارے قتل دراصل غیرت کے نام پر ہونے والے قتل ہیں۔

 وہ سارے قتل بلکل ویسے ہی قتل تھے، جیسے قندیل بلوچ کا قتل ہوا تھا۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کے دور میں اس کو غلط نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب لوگوں میں اتنا شعور آ گیا ہے کہ قتل کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود قندیل کا قاتل آج کے زمانے میں بھی قانون کے سامنے قاتل سمجھے جانے کے بعد بھی 'باعزت‘ بری ہو کر زندگی گزار رہا ہے۔

جولائی 2016ء کو قندیل بلوچ کو اس کے بھائی وسیم نے غیرت کے نام پر قتل کیا تھا اور 2019ء میں وسیم پر جرم ثابت ہوا اور عمر قید ہوئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ قندیل کے قتل کے تین ماہ بعد پارلیمنٹ سے غیرت کے نام پر قتل کے متعلق بل منظور ہوا، جس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔

 اس دن ایسا معلوم ہو رہا تھا، جیسے کوئی بہت بڑا انقلاب آیا ہو وہ جشن کا دن تھا، عید کا دن تھا کیونکہ ناقابل معافی کا مطلب تو ناقابل معافی ہی ہوتا ہے لیکن پورے چھ سال بعد قانون کی پوری شکل سامنے آئی اور مجرم وسیم بری ہو گیا۔

 اور اس کیس میں پھر سے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا 2016ء کا ایک کمنٹ سامنے آیا: سینیٹر صاحب نے ایوان کو بتایا تھا کہ جب انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قتل ناقابلِ معافی ہے، یعنی قصاص اور دیت کا نافذ نہیں ہوتا تو اس قانون یعنی غیرت کے نام پر قتل کے قانون کو نظریاتی مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟

قندیل بلوچ کے کیس پر گفتگو کرنے کا مقصد عورت مارچ کی اس علامت پر بات کرنا تھا، جو قتل ہونے کے چھ سال بعد بھی پاکستانی ریاست کی منافقت پر روشنی ڈال رہی ہے۔ آٹھ مارچ کا علامتی دن ایک سفر کا نام ہے، خواتین کے حقوق کا سفر اور  یہ سفر جاری رہے گا۔ 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26