1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سمندروں کے بدلتے رنگ ماحولیاتی تبدیلیوں کے عکاس

3 ستمبر 2023

صدیو ں سے ماہی گیر اور غوطہ خورسمندری پانی کے بدلتےرنگوں سے موسم اور طوفانوں کی پیش گوئیاں کرتے آئے ہیں۔ اب پہلی دفعہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سمندروں کے بدلتے رنگ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4VVb2
Luftaufnahme von Abrolhos Islands
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Niehues

 دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے اوشین ایکو سسٹم اور سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جولائی کے اواخر میں رائل اینتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا بھر میں سمندروں کے رنگوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔

تحقیق کا پس منظر

 جولائی 2023 میں رائل اینتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کی مصنف کرسٹین مالون اینڈریوز کے مطابق سنہ 2015 میں وہ  سائیراکوز یونیورسٹی نیویارک سے وابسطہ تھیں۔ ایک تحقیق کے سلسلے میں انھیں ڈومینک ریپبلک میں پانی کے مسائل کا مشاہدہ کرنے اور کچھ عرصے قیام کا موقع ملا۔

Indonesien West-Nusa Tenggara
ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا بھر میں سمندروں کے رنگوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیںتصویر: Imago/robertharding

اس دوران انھوں نے غوطہ خوروں کے استعارات سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ غوطہ خور عموماﹰﹰ کالے، زرد، نیلے، سبز، دھانی اور چاکلیٹی رنگوں کو مختلف حالات میں سمندر ی پانی کی حالت بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔

مالون اینڈریوز کے مطابق یہ بدلتے رنگ غوطہ خوروں کو پانی کی گہرائی، بہاؤ، تلاطم، طوفان کی آمد اور مچھلیوں کی موجودگی وغیرہ سے متعلق اہم معلومات  دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں معلوم ہوا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمندروں پر بھی پڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کا رنگ تبدیل ہورہا ہے۔

ان معلومات سے مالون کو تحریک ملی اور انھوں نےایک نئی تحقیق کا آغاز کیا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ آیا سمندروں کے بدلتے رنگ ماحولیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتے ہیں اور کیا ان کی بنیاد پر کوئی ایسا ماڈل تیار کیا جاسکتا ہے جن کی مدد سے اوشین ایکو سسٹم  کو بچانے کی کوشش کی جاسکے۔

مالون کے مطابق انھوں نے یہ آئیڈیا جب مانچیسٹر میٹرو پولیٹن یونیورسٹی میں شعبہ سوشل اینڈ  کلچرل جیوگرافی سے وابسطہ استاد ٹم ایڈنسر سے شیئر کیا تو ایڈنسر نے اس میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔

رائل اینتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ  کی تحقیق کیا ہے؟

مالون اینڈریوز کے مطابق قوس و قزح کے سات رنگ ہماری زندگی اور ماحول کا ایک اہم حصہ ہیں، جو مختلف خطوں کے کلچر، سماجی و سیاسی زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور اینتھروپولوجسٹ کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرت کے یہ رنگ کہیں پھیکے پڑنے لگے ہیں تو کئی جگہ ان میں بڑی تبدیلیاں نوٹ کی گئیں ہیں جن میں سمندر بھی شامل ہیں۔

Grönland Häuser in Qaqortoq
ایک حالیہ سائنسی تحقیق کا مرکز وہ کمیونیٹیز تھیں، جن کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں اور خطرناک ہیںتصویر: Imago/robertharding/T. Waltham

مالون کے مطابق ان کی تحقیق مرکز وہ کمیونیٹیز تھیں، جن کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں اور خطرناک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سمندر کے رنگوں میں تبدیلیاں پریشان کن ہیں کیونکہ ان سے سمندری حیات اور ساحلوں کےقریب آبادیاں براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔

سمندروں کے بدلتے رنگ کس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کو ظاہر کرتے ہیں؟

کرسٹین مالون کے مطابق ڈومینیک ریپبلک میں ماہی گیر کافی عرصے سے سمندری پانی کے رنگ اور حالت میں تبدیلیاں نوٹ کر رہے ہیں۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے سمندر کا رنگ زردی مائل سفید ہوا ہے، جس کے باعث مچھلیاں اور دیگر آبی حیات گہرے پانی میں چلی گئی ہیں کیونکہ زرد رنگ ان کے لے مہلک ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے سمندری طوفان کے بعد کچھ ہفتوں تک پانی کا رنگ چاکلیٹی براؤن رہا کرتا تھا مگر اب یہ دورانیہ بڑھ کر کئی ماہ ہوگیا ہے۔ ان رنگوں سے غوطہ خوروں کی بصارت اور جسمانی صحت دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مالون کے مطابق ماضی قریب میں پرپل یا ارغوانی رنگ کا مطلب شفاف سمندری پانی ہوا کرتا تھا مگر اب دنیا بھر میں پانی کا یہ رنگ بھی نایاب ہوچکا ہے۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ سمندری پانی کے ان بدلتے رنگوں کے تجز یئے سے سائنسدانوں اور محققین کو میرین ایکو سسٹم کے متعلق اہم معلومات ملی ہیں، جو مستقبل میں عالمی سطح پر نئی ماحولیاتی پالیسیاں بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں گی۔

سٹیلائٹ تحقیق کے نتائج کیا ہیں؟

کچھ عرصے قبل میسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ کے شعبۂ ایٹموسفیرک اینڈ  پلینیٹری سائنسز کی اسی حوالے سے ایک تحقیق شائع ہوئی تھی، جس کے لئے ایکوا سٹیلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا  سے مدد لی گئی تھی۔ سنہ 2002 میں لانچ کیا گیا یہ سٹیلائٹ گذشتہ 22 سال سے سمندر کے رنگوں اور حالت میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

یہ سٹیلائٹ سمندری پانی کا ایک مکمل طیف یا سات رنگوں کی پٹی میں تجزیہ کرتا ہے ان رنگوں میں وہ مخصوص نیلی رنگت بھی شامل ہے جس میں سمندر عموماﹰ ہمیں نظر آتے ہیں۔ 

ESA - Satellitenbild Sentinel-1A von Red Sea coral reefs
سمندروں کی حالت میں تبدیلی سےمتعلق جاننے کے لیے ایکوا سٹیلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا  سے مدد لی گئتصویر: ESA/Copernicus Sentinel data 2015

 اس تحقیق کے مطابق دنیا بھرمیں 56 فیصد سمندروں کے رنگ تبدیل ہوچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر خط استوا کے قریب ٹراپیکل خطے میں ہیں، جہاں درجۂ حرارت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس ڈیٹا کے مزید تجز یے سے معلوم ہوا کہ رنگوں میں یہ واضح تغیرات ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہیں۔

اس تحقیق میں معاونت کرنی والی سائنسدان سٹیفنی ڈٹ کیوی کہتی ہیں کہ اب یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا کہ ہمارے سمندر تبدیل ہو رہے ہیں اور ان کے رنگوں میں تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ سمندری فوڈ چین کی اکائی " فائٹو پلانکٹن" کی کیمیونیٹیز انسانی سر گرمیوں سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ الارمنگ صورتحال ہے کیونکہ فائٹو پلانکٹن کے متاثر ہونے سے سمندروں کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت پر براہ رست اثر پڑا ہے۔ اگرچہ سمندر انسانی بقا کے لیے لازم ہیں مگریہ ایک ایسی تبدیلی ہے، جسے انسان کے لیے کسی بھی طرح ریورس کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

نوٹ: پاکستان کی ساحلی پٹی بھی شدید آبی آلودگی اور دیگر مسائل کا شکار ہے۔ ڈوئچے ویلے نے پاکستانی ساحلی پٹی پر اس طرح کی کوئی تحقیق یا ایکٹیویٹی جاننے کے لئے میرین سائنسز کے کئی ایکسپرٹ سے رابطہ کیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا۔