1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسروں سے پہلے اپنا سوچیں

17 فروری 2024

ہم اکثر مہانوں کے سامنے بھرم قائم کرنے کے لیے تمام سہولیات اپنے گھر والوں کے بجائے مہمانوں کو دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے ہمیں اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس بھرم کا حقیقیت میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

https://p.dw.com/p/4cW0m
تصویر: privat

بیشتر پاکستانی گھروں میں کچھ برتن ایسے ہوتے ہیں، جو صرف مہمانوں کی آمد پر ہی نکالے جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ بستر خاص مہمانوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔  فریج اور فریزر میں بہت سے کھانے مہمانوں کے لیے ہی بنا کر رکھے جاتے ہیں۔ ہم اپنی تقریبات پر بھی زیادہ تر پیسہ دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے حصے میں بس ٹینشن، پریشانی اور ان ہی مہمانوں کی باتیں آتی ہیں۔

ہماری ایک جاننے والی خاتون نے اپنی پوری زندگی سسرالی گھر میں ملے ہوئے دو کمروں میں گزار دی تھی۔ ان کی کنجوسی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے برتن بھی گھر کے ہر فرد کے حساب سے رکھے ہوئے تھے، چار پلیٹیں، چار کٹوریاں، چار چمچ اور چار کانٹے۔ بقیہ برتن الماریوں میں بند تھے۔

انہوں نے کبھی اپنے کمروں کو اپنے لیے آرام دہ بنانے کے لیے پیسے خرچ نہیں کیے۔ ان کی بیٹیاں وہیں سے بیاہ کر اپنے سسرالوں میں چلی گئیں۔ انہوں نے جو بچت کی تھی وہ اپنی بیٹیوں کے جہیز اور شادی کی تقریبات پر صرف کر دی۔ وہ بھی ان ہی دو کمروں میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ اور ان کا سارا سامان پہلے دن کی طرح الماریوں اور بکسوں میں بند ہے۔

مہمان داری ہماری روایت ہے۔ ہم مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اپنے گھر میں وہ سہولیات اور آرام فراہم کرتے ہیں جو ہم نے خود سے بھی بچا کر رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مہمانوں کی آمد پر جب وہ چیزیں نکالی جاتیں ہیں تو انہیں دیکھ کر گھر والوں کی آنکھوں میں محرومی اتر آتی ہے۔ مہمانوں سے وہ محرومی چھپانے کے لیے ہم اپنے بچوں کو گھر کے کونوں کھدروں کی طرف بھگا دیتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسا دوسروں کے سامنے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ گرچہ موجودہ مہنگائی میں سب کا حال ایک سا ہو چکا ہے۔ ان کے لیے پھر بھی اس روایت پر چلنا ضروری ہے۔ ہر گھر میں بچے، بڑے اور بوڑھے موجود ہیں۔ ہر ایک کو اچھی خوراک، سہولیات اور آرام کی ضرورت ہے لیکن ہم ان سے وہ سہولیات چھین کر دوسروں کے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں۔

گھر سے باہر دوستوں کے پرتعیش کھانے کا زبردستی بِل ادا کرتے ہیں اور گھر دال یا سبزی لے جاتے ہیں۔  ہماری پہلی ذمہ داری اپنے اور اپنے گھر والوں کی ہے۔ دوستوں میں اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے اپنی آمدن کا ایک حصہ خرچ کر آنا دانشمندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے۔

کچھ لوگوں کو یہ اس بلاگ سے خود غرضی کی بو آ سکتی ہے لیکن کیا کریں کہ اس شدید مہنگائی میں زندگی کا نظام خود غرض ہوئے بغیر نہیں چلایا جا سکتا۔ ایک زمانہ تھا جب ایسے اخراجات گھر کا نظام متاثر نہیں کرتے تھے تاہم اب لوگوں کے لیے ان اخراجات کو اپنے گھر متاثر کیے بغیر کرنا مشکل ہو چکا ہے۔

کورونا کی عالمی وبا کے دوران بہت سے لوگوں نے فٹافٹ اپنے بچوں کی شادیاں نبٹا دی تھیں۔ جنہوں نے ناراض ہونا تھا ان سے لاک ڈاؤن کا بہانہ کر دیا۔ یوں انہوں نے اپنے لاکھوں روپے ضائع ہونے سے بچا لیے تھے۔

ہماری تقریبات ہماری بچت کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہیں۔ اکثر ہمیں ان تقریبات کو بہترین بنانے کے لیے دوسروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ بہت سے خاندان سالوں پہلے سے ہی ان تقریبات کے لیے رقم محفوظ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس رقم کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ان پر اور ان کے گھر والوں پر لگتا ہے، زیادہ تر رقم دوسروں پر خرچ ہوتی ہے۔

جو جہیز اپنا اور گھر والوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر بنایا ہوتا ہے وہ بیٹیوں کے سسرال والے سٹور میں رکھ دیتے ہیں۔ خواتین پوری زندگی اپنے علیحدہ گھر کے انتظار میں اس سامان کو سٹور میں دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتی ہیں۔ بہت سی خواتین جہیز میں ملا ہوا کچھ سامان اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ وہ بیٹیاں اس سامان کو اپنی بیٹیوں کے لیے سنبھال لیتی ہیں۔ یوں بہت سی چیزیں کبھی استعمال ہی نہیں ہو پاتیں۔

بس دوسروں کے سامنے ہمارا بھرم قائم رہتا ہے، جس کا ہمیں کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اب بھی ان فضول روایت پر چلنا چاہیے یا اپنے اور اپنے گھر والوں کو اپنی پہلی ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے وسائل ان پر خرچ کرنے چاہیے؟

ترقی یافتہ دنیا اس امر کو بہت پہلے سمجھ گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے حساب سے ملتے ہیں۔ کوئی کسی پر بوجھ نہیں بنتا۔ سب اپنا خرچ خود اٹھاتے ہیں۔ اس طرح ان کا آپس میں میل جول صحت مند طریقے سے ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اس طرزِ زندگی کو اپنانا چاہیے اور اپنے وسائل اپنی ضروریات پر خرچ کرنے چاہیے نہ کہ جھوٹی مہمان داری پر۔ اس طرح ہم اپنے گھر والوں کو بہتر زندگی گزارنے کے وسائل فراہم کر پائیں گے اور معاشرے میں ایک خوشحال گھر بن سکیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔