1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے قتل کو کب تک خودکشی قرار دیا جاتا رہے گا؟

3 مارچ 2021

ترکی میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی قیادت اور عدلیہ اپنا رویہ درست نہیں کریں گے، خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/3q9NX
Türkei Istanbul Proteste gegen Gewalt an Frauen
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Demirtas

 ترکی میں عورتوں کے بہیمانہ قتل کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں کئی خواتین کے قتل کو خودکشی قرار دے کر دبا دیا گیا۔

مئی سن 2018 میں شُولے چت نامی تیئیس سالہ لڑکی کا قتل ترک دارالحکومت انقرہ میں ہوا۔ اس بھیانک واقعے سے سارا ملک لرز اٹھا تھا۔

اونچی ایڑی والے 440 جوتے، ہر جوتا ایک ترک مقتولہ کا

اس نوجوان خاتون کو دفتر میں شراب کے نشے میں دھت دو افراد نے ریپ کیا اور پھر انہیں بلند عمارت سے نیچے پھینک دیا۔ اس واردات میں مقتول کا باس بھی ملوث تھا۔

Proteste von Frauenorganisationen in Ankara
مئی سن 2018 میں شُولے چت نامی تیئیس سالہ لڑکی کا قتل ترک دارالحکومت انقرہ میں ہوا، جس سے سارا ملک لرز اٹھا تھاتصویر: DW/H. Köylü

ملزمان نے پولیس کے سامنے دعویٰ کیا کہ لڑکی نے خودکشی کی تھی۔ لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہوا کہ یہ بظاہر خودکشی کا واقعہ نہیں تھا۔ رپورٹ میں لڑکی کی گردن ٹوٹی ہوئی، خون میں نشہ آور مواد کی موجودگی اور جنسی زیادتی کے شواہد ملے۔

یہ مقدمہ چھ ماہ چلتا رہا۔ ہر سماعت پر مظاہرین عدالت کے باہر موجود ہوتے اور مقتول خاتون کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے۔ بلآخرعدالت نے اس کیس میں ایک ملزم کو عمر قید اور دوسرے کو انیس برس قید کی سزا سنائی۔

ناکافی تفتیش

ترکی میں اس ہائی پروفائل مقدمے کا بڑا تذکرہ ہوا۔ ملزمان کو سزا ملنے کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کو امید تھی کہ شاید اب نظام میں بہتری آرہی ہے۔ لیکن خواتین کے قتل کی وارداتوں میں کمی نہ آئی اور کئی ایسے واقعات ہوتے رہے جن میں مشتبہ قتل کو خودکشی قرار دے دیا گیا۔

Proteste von Frauenorganisationen in Ankara
سولے چت کو قتل کرنے کے مقدمے کے دوران خواتین انصاف کا مطالبہ کرتی رہی تھیںتصویر: DW/H. Köylü

حال ہی میں جنوب مشرقی ترک شہر دیاربکر میں آیتن کایا کے قتل کو بھی میڈیا کوریج ملی۔ کایا کی لاش اپنے گھر میں پھندے سے لٹکی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس خاتون کی ہلاکت کو استغاثہ نے خودکشی قرار دے کر جلد ہی تفتیشی عمل بند کر دیا۔

ان کے گھر والے پولیس کے موقف سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قتل تھا اور تفتیشی عمل درست انداز میں مکمل نہیں کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم میں بھی رسی سے لٹک کر مرنے کے شواہد نہیں ملے اور مقتول کے بدن پر چوٹوں اور تشدد کے نشانات بھی تھے۔ لیکن ان تمام شواہد کے باوجود استغاثہ نے اس معاملے کی جامع تفتیش کرنے سے انکار کر دیا۔

ترک خواتین فوجی افسران کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی ختم

تین سو خودکشیاں

ترکی میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم "روزا" کے مطابق حال ہی میں ایسی قسم کے پرسرار حالات میں مزید چار عورتوں کی خودکشیاں سامنے آئی ہیں لیکن حکام ان کی تفتیش کرنے سے انکاری رہے ہیں۔

Türkei Istanbul | Feministische Performance geht um die Welt " Der Vergewaltiger bist du"
خواتین کی ایک تنظیم سے منسلک کارکن نے مشتبہ ہلاکتوں کی ذمہ داری انصاف کے نظام پر عائد کی ہےتصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Demirtas

ترکی میں ایسی ہلاکتوں کے خلاف تحریک چلانے والی تنظیموں کے مطابق سن 2020 میں ترکی میں خواتین کی تین سو خودکشیاں ہوئی ہیں جبکہ کوئی ایک سو اکہتر خواتین کی موت مشتبہ حالات میں ہوئی۔

معروف ترک خاتون ناول نگار کے بیرون ملک سفر پر پابندی برقرار

خواتین کے حقوق کی ایک اور تنظیم سے منسلک کارکن کا کہنا ہے کہ ملک میں انصاف کا نظام اس قابل نہیں کہ ایسی خودکشیوں کے حوالے سے بھرپور اقدام اٹھا سکے۔ ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کا تواتر سے ہونا ملک میں  مردوں کے بنائے ہوئے نظام کی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔

بورجاس کاراکاس (ع ح، ش ج)