1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمہوریت اور انتخابات تاریخ کے آئینے میں

3 فروری 2024

انتخابات جمہوریت کا ایک لازمی جز ہیں اور اس عمل کو ہر حال میں جاری رہنا چاہیے کیونکہ ووٹ ہی جمہوری معاشرے میں طاقتور ترین اور غیر متشدد ہتھیار کا درجہ رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4c0qj
Sanober Nazeer
تصویر: privat

بات چاہے ڈیموکریسی (جمہوریت) کی ہو یا الیکشن (انتخابات) کی، تانا بانا قدیم یونانی یا رومن تہذیب سے ہی ملتا ہے۔ ڈیمو کا مطلب لوگ اور کریسی کی معنی طاقت کے ہیں، یعنی ''لوگوں کی طاقت۔" کہا جاتا ہے کہ ابتدائی جمہوریت کا خاکہ یونانی تہذیب کی ہی دین ہے۔

تاریخ میں یونان کی دو طاقتور اور مشہور شہری ریاستیں ہمیشہ سرفہرست رہی ہیں۔ اسپارٹا اور ایتھنز۔ یہ دونوں یونانی شہری ریاستیں ایک دوسرے کی متضاد تھی۔ اسپارٹا اپنی فوجی طاقت اور جنگی صلاحیتوں کی بنا پر جبکہ ایتھنز  اپنے فلسفیوں، دانشوروں، قانون سازوں اور فنکاروں کی وجہ سے ایک اعلیٰ مقام کی حامل تھی۔

ایتھنز کے شہریوں میں دلائل کی روشنی میں بحث مباحثہ کرنا، نئے خیالات اور سوالات کی کھوج لگانے کا چلن عام تھا۔

الیکشن کا سرا بھی قدیم یونان اور روم سے ہی جا ملتا ہے۔

محققین کی رائے کے مطابق گو کہ اسپارٹا ایک فوجی ریاست تھی لیکن تقریباً سات سو سال قبل مسیح میں بھی وہاں الیکشن کا تصور موجود تھا۔ حکومت چونکہ امراء اور اشرافیہ کی تھی، تو اشرافیہ کا ایک مخصوص طبقہ الیکشن کے ذریعے سرکاری عہدے داروں کو منتخب کیا کرتا تھا۔

ایتھنز ایک جمہوری ریاست تھی۔ یہاں انتخابی اصلاحات جمہوری طرز پر کی گئی تھیں اور اس کا سہرا کلائس تھینیز(Cleisthenes) کے سر جاتا ہے، جو قدیم ایتھنز کا قانون ساز تھا۔ اس نے تقریباً  پانچ صدی قبل مسیح میں ایتھنز کا آئین بنایا اور جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ غالباً اسی بنا پر ایتھنز کو پہلی جمہوری ریاست ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کلائس تھینیز نے سیاسی عمل میں ایتھنز کے عوام کو زیادہ بااختیار بنایا جبکہ امراء کے اختیارات کو کم کیا۔ ایتھنز کے آئین کے مطابق انتخابات میں ریاست کے تمام مرد شہریوں  کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ اسی لیے محققین نے کلائس تھینیز کو ''بابائے جمہوریت‘‘ کا خطاب دیا۔

جہاں یورپ میں یونان اور روم کی تہذیبیں علم و آگہی کا گہوارہ مانی جاتی تھیں، وہیں برصغیر میں قرون وسطیٰ کے بنگال میں ''پالا سلطنت" کو بھی سنہرا دور کہا جا سکتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں شہنشاہ گوپال کو انتخابات کے ذریعے منتخب کیا گیا تھا جبکہ بھارت کے جنوب میں لگ بھگ ایک ہزار سال قبل تامل ناڈو کی  ''چولا سلطنت " پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم تھی۔ یہاں بھی گاؤں کی پنچائت کے ارکان حق رائے دہی کا استمعال کرتے ہوئے حاکم  وقت کا انتخاب کیا کرتے تھے۔

آج دنیا کے تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں کسی نا کسی طرح کا جمہوری نظام ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جمہوریت اور انتخابات لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

سترہویں صدی عیسوی سے یورپ اور اٹھارہویں صدی سے شمالی امریکہ میں الیکشن منعقد کرانے کا آغاز ہوا۔ جمہوریت جیسے نظام حکومت میں بھی خواتین کو حق رائے دہی سے بیسویں صدی تک محروم رکھا گیا تھا اور یہ بنیادی اور انسانی حق خواتین نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا۔

الیکشن ایک ایسا انتخابی عمل ہے جس میں ملک کے معاملات اور انتظامات چلانے کے لیے ایک مخصوص مدت بعد نئے سرے سے حکمران اور دیگر پارلیمانی نمائندوں کو عوام کے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ انتخابی عمل براہ راست عوام سے جڑا ہونا چاہیے۔

جس طرح جمہوریت کی دو اہم اقسام ہیں، ایک منتخب جمہوریت اور دوسری نمائندہ جمہوریت۔ اسی طرح الیکش بھی دو قسم کے ہوتے ہیں براہ راست الیکشن اور بالواسطہ الیکشن۔

منتخب جمہوریت میں انتخابات تو منعقد کیے جاتے ہیں لیکن سماج کے تمام طبقوں کی نمائندگی پارلیمان میں نہیں ہوتی۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے، جہاں انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن مزدوروں، کسانوں، خواتین، معذوروں، نوجوانوں، ٹرانس جینڈر افراد اور اقلیتوں وغیرہ کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہوتی۔

منتخب جمہوریت کے برعکس نمائندہ جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں سماج کے تمام طبقات کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ پارلیمان میں کسی بھی قانون کو منظور کرتے ہوئے ہر طبقے کے مفادات اور خدشات کو مدنظر رکھا جائے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات ''منتخب حکومت" کو اقتدار میں لولا لنگڑا اختیار دے دیتے ہیں لیکن یہ نمائندہ جمہوریت نہیں کہی جا سکتی۔

نمائندہ جمہوریت کی ایک اہم خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں انتخاب کا انحصار دولت پر نہیں ہوتا۔ بلکہ سیاسی جماعت سے وابستگی اہم مانی جاتی ہے۔ ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن لڑنے والے زیادہ تر امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ انتخابی مہم پر بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ غریب امیدوار اگر الیکشن میں کھڑے ہو بھی جائیں تو وہ اپنی انتخابی مہم امیر امیداروں کے مقابل چلانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ جب اسمبلیوں میں غریب اور محنت کش طبقے کی نمائندگی ہی نہیں ہو گی، تو عام ووٹروں کی الیکشن میں دلچسپی مسلسل کم ہی ہوتی جائے گی۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت اس لائق نہیں ہے کہ ان کو ووٹ دے کر جتوایا جائے کیونکہ جیتنے کے بعد کوئی بھی عوام کے مسائل حل نہیں کرتا۔

اسی بنا پر لوگ حق رائے دہی سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں جو کہ ایک خطرناک صورت حال کی نشاندہی ہے۔

پاکستانی سیاست میں ’’براہ راست" انتخابات میں عوام کے ووٹ کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو منتخب کیا جاتا ہے جبکہ سینیٹ کے ارکان اور صدر پاکستان کا انتخاب بالواسطہ انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے یعنی انہیں عوام نہیں بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران منتخب کرتے ہیں۔

آج کل پاکستان میں الیکشن کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ عام انتخابات میں کتنے پاکستانی شہری اپنا حق رائے دہی استمعال کرتے ہیں۔

جمہوریت میں انتخابات کا انعقاد سیاسی عمل کا ایک لازمی جز ہے جسے ہر حال میں جاری رہنا چاہیے کیونکہ ووٹ ہی جمہوری معاشرے میں ایک طاقتور ترین غیر متشدد ہتھیار کا درجہ رکھتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin  Snober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔