1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں اسلامی قانون کے حامیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

2 مئی 2024

جرمن سیاست دانوں نے اس ریلی کی رپورٹ کے بعد کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں مقررین نے جرمنی میں اسلامی شرعی قانون کا مطالبہ کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4fPk5
ریلی کے شرکاء نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر ''خلافت ہی حل ہے‘‘ جیسے نعرے درج تھے
ریلی کے شرکاء نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر ''خلافت ہی حل ہے‘‘ جیسے نعرے درج تھےتصویر: Axel Heimken/dpa/picture alliance

باویریا کی قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے وفاقی جرمن پارلیمان میں حزب کے سربراہ آلیکسانڈر ڈوبرِنٹ اور متعدد دیگر اراکین پارلیمان نے بدھ کے روز اپنی اپنی پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر ہیمبرگ میں ریلی کے دوران جرمن جمہوریت کو تبدیل کرنے اور اس کی جگہ سخت اسلامی قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

جرمنی میں اسلاموفوبیا بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ

جرمن رياست نارتھ رائن ويسٹ فیليا، سلفی مسلمانوں کا گڑھ

قدامت پسند رہنما ڈوبرِنٹ نے جرمنی میں ''خلافت‘‘ کے قیام کی وکالت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جگہ یا تو جیل میں ہونا چاہیے یا پھر انہیں جرمن شہریت سے محروم کردیا جانا چاہیے۔

کیا جرمنی میں تارکین وطن اور اسلام کے خلاف منفی جذبات بڑھ رہے ہیں؟

ڈوبرِنٹ نے کیا کہا؟

ڈوبرِنٹ، جن کی پارٹی سی ایس یو وفاقی چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ حکمران اتحاد کی مخالف ہے، نے وفاقی پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ''جو کوئی بھی جرمنی میں شریعت (سخت اسلامی قانون) متعارف کرانا چاہتا ہے اور خلافت کا اعلان کرنا چاہتا ہے، وہ ہماری جمہوریت کا دشمن ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ریاست کو مستقل مزاجی اور سختی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

کولون میں جرمنی کی سب سے بڑی مسجد سے اسپیکر پر اذان آج سے

کیا جرمنی مسلمان دہشت گردوں کے حملے روکنے میں کامیاب رہا؟

ڈوبرِنٹ نے مطالبہ کیا کہ ایسے لوگوں کو کم سے کم بھی قیدکی سزا کے ساتھ ساتھ سماجی فوائد سے بھی محروم کر دیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا، ''ان کے رہائشی اجازت نامے یا دوہری شہریت منسوخ کردینا چاہییں اور ان تمام تنظیموں پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے جو جرمنی میں خلافت قائم کرنا چاہتی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا، ''جرمنی میں قانون کی حکمرانی کا اطلاق ہوتا ہے نہ کہ مذہبی قوانین کا۔‘‘

جرمنی میں اسلاموفوبیا، ایک سنگین مسئلہ

دیگر سیاست دانوں نے کیا کہا؟

اس سے قبل مختلف خدشات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے پولیس پر زور دیا کہ وہ ریلی کے دوران ہونے والے کسی بھی طرح کے جرائم کے خلاف پوری سختی سے کارروائی کرے۔

چانسلر شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) سے تعلق رکھنے والی نینسی فیزر نے برلن کے ایک روزنامے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہاں حماس کے لیے دہشت گردی کے پروپیگنڈے اور یہودیوں کے خلاف نفرت آمیز تقریروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''اگر اس طرح کے جرائم ہوتے ہیں تو مظاہروں میں فوری اور زبردست مداخلت کرنا ہو گی۔‘‘

چانسلر اولاف شولس، جو ماضی میں شہری ریاست ہیمبرگ کے گورننگ میئر بھی رہ چکے ہیں، نے پیر کے روز کہا تھا کہ اس طرح کی خلاف ورزیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ''جو تمام اسلامی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، ان سے ہمارے پاس دستیاب امکانات اور اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے تحت نمٹا جانا چاہیے۔‘‘

جرمن وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک، جو گرین پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ اس مظاہرے نے بطور ایک جمہوری ریاست جرمنی کے اصولوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

انہوں نے کہا، ''یہ ایک ایسا مظاہرہ تھا، جو آئین پر مبنی نہیں تھا۔‘‘ رابرٹ ہابیک جرمنی کے نائب چانسلر بھی ہیں۔

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں یہ ریلی پرامن طور پر اپنے اختتام کو پہنچی تھی
پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں یہ ریلی پرامن طور پر اپنے اختتام کو پہنچی تھیتصویر: Axel Heimken/dpa/picture alliance

ریلی میں کیا ہوا؟

پولیس کا کہنا ہے کہ اس ریلی میں تقریباً 1100 افراد شامل تھے اور اسے اسلام پسندوں نے منظم کیا تھا۔

شہرکے سینٹ جارج ڈسٹرکٹ میں ہونے والے اس پروگرام میں شریک افراد نے جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا والی پالیسیوں اور میڈیا مہم کے خلاف احتجاج کیا۔

مقررین نے غزہ کی جنگ کے پس منظر میں جرمنی میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو بعض جرمن سیاست دانوں کی جانب سے 'اسلام پسند‘ قرار دیے جانے کو ''سستا جھوٹ‘‘ اور ''بزدلانہ رپورٹنگ‘‘ قرار دیا۔ بعض مقررین نے جرمنی کو ''خلافت‘‘ میں تبدیل کر دینے کا مطالبہ بھی کیا۔

ریلی کے شرکاء نے بینرز بھی اٹھا رکھے تھے، جن پر ''جرمنی۔۔ اقدار کی آمریت‘‘ اور ''خلافت ہی حل ہے‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں یہ ریلی پرامن طور پر اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔

وفاقی صوبے ہیمبرگ میں وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین کی اطلاعات کے مطابق جن لوگوں نے اس ریلی کا انعقاد کیا تھا، ان کے مسلم انٹرایکٹیو گروپ سے قریبی روابط ہیں، جسے حکام نے ایک انتہا پسند گروپ کے زمرے میں رکھا ہوا ہے۔

ہیمبرگ پولیس کے سربراہ فالک شنابل نے کہا کہ انفرادی بینرز کی فوجداری جرم کے تحت جانچ کی جائے گی جب کہ اجتماع کے حق کے تحت یہ دیکھا جائے گا کہ آیا یہ اجتماع پرامن تھا۔

ج ا / م م (ڈی پی اے، کے این اے)