1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب یہ وہم لاحق ہو جائے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے

6 جون 2023

اس فلم میں نامور فرانسیسی اداکارہ اُودرے تووتو نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے، جو بھرپور ذہانت اور قابل مصورہ ہونے کے باوجود اس خبط میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اس کا پڑوسی ڈاکٹر اس سے محبت کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4SF1z
DW Urdu Blogerin  Snober Nazir
تصویر: privat

ہی لوز می، ہی لوز می ناٹ ( He loves me He loves me not) کے نام سے 2002  میں ایک فرانسیسی فلم آئی تھی، جسے لٹیسیا کلومبانی نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ کہانی دونوں حصوں میں ایک ہی ہے لیکن فریقین کے نقطہ نظر ایک دوسرے سے قطعی متضاد ہیں، جو ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتے ہیں۔

اس فلم میں دکھائی جانے والے دماغی عارضے کو  ''ایروٹومینیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایروٹومینیا کو بائی پولر کی ابتدائی شکل بھی کہا جا سکتا ہے۔

ایروٹومینیا کا دورانیہ ہر مریض میں مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ افراد اس فریب میں برسوں گزار دیتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی میں وقتی رونما  ہونے والے کسی حادثے کے نتیجے میں اس عارضے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے افراد جسمانی اور ذہنی توانائی سے مالا مال ہوتے ہیں، جس کی بنا پر اکثر انسومنیا یعنی نیند کی کمی کا شکار بھی رہتے ہیں۔

بظاہر خود کومختلف سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف رکھنے کے باوجود لاشعوری طور پر دماغ میں  اس شخص یا اشخاص کے متعلق خیالات کی ایک دوڑ لگی ہوتی ہے، جسے وہ اپنا محبوب یا محبوبہ والا رشتہ جوڑ بیٹھے ہوتے ہیں۔

بنیادی طور پر ایسے افراد تنہائی کا شکار ہوتے ہیں چونکہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو نئی تحقیقات کی روشنی میں ایسے افراد اپنی تنہائی کا علاج ورچوئیل (مصنوعی) لائف میں ڈھونڈتے ہیں اور سوشل کلائمبنگ ان کا من پسند مشغلہ بن جاتا ہے۔

محفلوں میں بے لگام بولتے ہیں اور ذہن میں یہ اختراع ہوتی ہے کہ ہر ایک اُن میں جنسی کشش محسوس کر رہا / کر رہی ہے۔

عام حالات میں بھی گالم گلوچ ایسے افراد کا خاصہ ہوتی ہے۔ ایسے افراد اکثر جارحانہ رویے اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان خطرناک رویوں میں غصے میں حدوں کو عبور کرنے کے علاوہ بے پروا ڈرائیونگ اور پیسے کا بے دریغ استمعال قابل ذکر ہیں، جس کا فخریہ اظہار بھی اسی فریب یا عارضے کی واضح نشانی مانا جاتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایروٹومینیا کے متاثرہ افراد کا شکار مشہور شخصیات ہوتی ہیں مثلاً کوئی سلیبرٹی، سیاستدان یا بزنس مین وغیرہ ۔

ان کی عام باتوں کو بھی وہ اپنے لیے ذومعنی اشارے سمجھتے ہیں اور دوران گفتگو نظروں کے مل جانے اور تعریف کرنےکو  خود کے لیے پوشیدہ محبت سے تشبیہ دیتے ہیں۔

سن 1995 میں شہرہ آفاق گلوکارہ میڈونا کے ایک مداح رابرٹ ہو سکن کا کیس بڑا مشہور ہوا تھا۔ رابرٹ کا سرعام یہ اصرار تھا کہ مقدر نے میڈونا کو اس کی بیوی کے لیے چنا ہے۔

 کئی بار اس نے میڈونا کے گھر گھسنے کی جسارت کی اور بالآخر اسے دس سال قید اور اس دماغی عارضے سےنجات کے لیے نفسیاتی علاج کی سہولیات بھی مہیا کی گئیں۔ ایسے افراد اپنے گرد ایک خیالی دنیا بنائے ہوتے ہیں، جس میں وہ اپنے اُس محبوب کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں، جو خود بیچارہ/ بیچاری ان عاشقانہ سرگرمیوں سے لاعلم ہوتا / ہوتی ہے۔

اس فریب میں مبتلا افراد اپنی من گھڑت عشقیہ کہانیاں بُننے میں کمال رکھتے ہیں۔ اس سے نفسیات دان اب تک یہی نتیجہ اخذ کر سکیں ہیں کہ کہیں نا کہیں ایسے لوگوں میں  احساس برتری یا کمتری کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

سن 1980 میں ایروٹومینیا عارضے میں مبتلا ایک عورت کا کیس آیا۔ عورت صحت مند، خوش اخلاق اور برجستہ جملے بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی لیکن اسے پختہ یقین ہو گیا تھا کہ بیک وقت مختلف مرد اُسے ناصرف جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں بلکہ اس کے قرب حاصل کرنےکے لیے  اس کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ عورت اس عارضے کا شکار تقریباً آٹھ سال رہی جب تک کہ اس کا کامیابی سے علاج مکمل نہیں ہو گیا۔

ایروٹومینیا ایک غیر معمولی ذہنی عارضہ ہے، جس میں مریض ہٹ دھرمی کی حد تک کسی سے جذباتی وابستگی کامظاہرہ کرتا ہے اور جب دوسرا فریق ایسی روش سے منکر ہو تو اس مرض میں مبتلا شخص کے جارحانہ رویے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔

ان حالات میں اُن کا ردعمل سفاک اور بے حسی پر مبنی بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ ایسے مریض اپنے تصورات میں یہی اخذ کرتے ہیں کہ ان کا محبوب بھی ان پر جان چھڑکتا ہے لیکن کسی تیسرے نے درمیان میں آکر سب چوپٹ کر دیا ہے۔

سن 2016 میں ایک شادی شدہ عورت کا بھی ایک ایسا ہی کیس آیا، جو ایروٹومینیا کا شکار تھی۔ اسے اس پر کامل یقین تھا کہ اس کا سابقہ باس اسے پاگل پن کی حد تک چاہتا ہے اور ان دونوں کے باہم ہونے میں اس کا شوہر دیوار ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ اس کے سابقہ باس کو ان ساری لغویات کا قطعی کوئی علم نہ تھا اور وہ اپنی بیوی بچوں سمیت اچھی بھلی زندگی گزار رہا تھا۔

شاید اس ذہنی عارضہ کو مد نظر رکھتے ہوئے جون ایلیاء نے فرمایا!

وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب

وہ سارا ماجرا جو تھا وہ تھا نئیں

قصہ مختصر یہ کہ انسان جسمانی بیماریوں کا علاج تو بنا تاخیر کرواتا ہے لیکن ذہنی عارضہ لاحق ہو جائے تو اسے قبول کرتے ہوئے علاج تو دور کی بات اسے تسلیم کرنے سے بھی منکر رہتا ہے۔ جبکہ بروقت علاج ہی اس دماغی عارضے کو پاگل پن اور شدید نفسیاتی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin  Snober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔