1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مسجد و مدرسے کی مسماری پر تشدد میں متعدد افراد ہلاک

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
9 فروری 2024

اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ہی شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ کشیدگی اور پھیلتے تشدد کے پیش نظر انٹرنیٹ سروسز اور تمام اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4cCg7
ہلدوانی کے مسلمان احتجاج کرتے ہوئے
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جیسے ہی مسماری شروع ہوئی، خواتین سمیت مشتعل رہائشی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ کر اس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے لگےتصویر: IANS

بھارتی ریاست اتراکھنڈ کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے جمعرات کے روز ضلع ہلدوانی میں ایک مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کو مسمار کر دیا، جس پر علاقے میں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا اور حالات انتہائی کشیدہ بتائے جا رہے ہیں۔

بھارت: یکساں سول کوڈ سے مسلمانوں میں گہری تشویش

گزشتہ شب حکام نے تشدد میں چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی تھی اور تقریبا ًدو سو افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جس میں ایک بڑی تعداد میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

بھارت: اتراکھنڈ میں مسلمانوں سے دکانیں خالی کرنے کا مطالبہ

واقعے کے فوری بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا، جبکہ دیر رات گئے وزیر اعلی پشکر دھامی نے ایک اعلی سطحی میٹنگ کی قیادت اور میٹنگ کے بعد فورسز کوشرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم صادر کیا۔ 

مودی حکومت مسلمانوں کی املاک مسمار کرنا بند کرے، ایمنسٹی

کشیدگی کی وجہ سے انٹرنیٹ خدمات مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، جبکہ علاقے میں تشدد کی روک تھام کے لیے اضافی فورسز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

تشدد کے یہ واقعات شمالی ریاست اترا کھنڈ کے ضلع ہلدوانی  کے 'بم بھول پورہ' علاقے میں اس وقت پیش آئے، جب مقامی انتظامیہ نے وہاں پر ایک مسجد اور مدرسے کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر تعینات کیے۔ حکام کا دعوی ہے کہ مذکورہ مسجد اور مدرسہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے، اسی لیے ایسا کیا گیا۔

بھارت: مفتی سلمان ازہری نے ایسا کیا کہا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا؟

اس متنازعہ مسجد و مدرسے کا مقدمہ ریاستی عدالتوں میں بھی زیر سماعت تھا اور عدالتوں نے بھی مسلم فریق کے دلائل کو مستر کرتے ہوئے، مقامی حکومت کے موقف کی تائید کی تھی۔

بھارت: گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت پر مسلمانوں کا شدید ردعمل

پوری ریاست میں ہائی الرٹ

ایک بھارتی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے زخمی ہونے والے جن افراد کو ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے، اس میں زیادہ تر پولیس اہلکار اور وہ میونسپل ورکرز ہیں، جو مسجد اور مدرسے کے کمپلیکس میں انہدامی کارروائی انجام دے رہے تھے۔ 

اتراکھنڈ پولیس
تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا گیا اور انتظامیہ نے نینی تال میں تمام اسکول اور کالج بند کرنے کا حکم بھی دیاتصویر: Hridayesh Joshi

جمعے کی صبح ہلدوانی کے مختلف علاقوں میں سخت سکیورٹی دکھائی دی، جبکہ جگہ جگہ سکیورٹی فورسز کو بڑی تعداد میں تعینات دیکھا گیا ہے۔

اتراکھنڈ حکومت کا کہنا ہے کہ پوری ریاست میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا گیا اور انتظامیہ نے نینی تال میں تمام اسکول اور کالج بند کرنے کا حکم بھی دیا۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پرہلاد مینا نے بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مدرسہ اور مسجد غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کی تعمیل میں پولیس اور صوبائی آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے اہلکاروں کی بھاری موجودگی میں انہدامی کارروائی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا، ''جیسے ہی مسماری شروع ہوئی، خواتین سمیت مشتعل رہائشی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ کر اس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ ہجوم نے پولیس کی کار سمیت کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی جس سے کشیدگی بڑھ گئی۔ دیر شام تک بم بھول پورہ پولیس اسٹیشن کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے بعد میں ضلع مجسٹریٹ نے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا۔''

بھارتی مسلمان بلڈوزر کلچر کی زد میں

واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی ریاست اتراکھنڈ کی ہندو قوم پرست حکومت نے یونیفارم سول کوڈ سے متعلق ایک بل منظور کیا تھا، جس کی بھارتی مسلمانوں نے شدید طور پر مخالفت کی اور اس کے خلاف مہم چلانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

دو روز قبل ہی حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں

 کو منہدم کرنے سے متعلق رپورٹیں جاری کیں اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی ''غیر قانونی'' مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیا پردیش، اترپردیش اور دہلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد ''سزا'' کے طور پر ان کی املاک کو مسمار کر دیا گیا۔

بیشتر واقعات میں ایسا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، والی ریاستوں میں ہی ایسا کیا جاتا ہے۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک نئی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کر دینے کی پالیسی شروع کی۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

 قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن 'بلڈوزر انصاف' کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈرل مشین ٹوٹ گئی، ہاتھوں سے کھدائی شروع