1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کی زندگی میں کثیراللسانیت سے جنم لینے والے نئے امکانات

12 فروری 2023

ماہرین کے مطابق جو بچے دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں، ان کی زندگیوں میں خوشیوں اور کامیابیوں کے نئے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور افہام و تفہیم کے نئے افق بھی سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4N9ku
multicultural family Symbolbild
تصویر: Westend61/IMAGO

ماہرین سماجی اور فکری نشو و نما کے اس عمل کو کثیر اللسانیت یا بیک وقت کئی زبانیں سمجھنے اور بولنے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اب تک کی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے پلنے بڑھنے والے بچوں کے ذہنی افق وسیع تر ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بات بھی سچ ہے کہ بچوں کی کثیر اللسانی تربیت کے لیے تاحال کوئی ایک بھی متفقہ یا واحد بہترین حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔

اسپین میں ہسپانوی اور فرانسیسی زبانیں

ڈھائی سالہ اینریک اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں فرش پر بیٹھا کھیل رہا ہے اور ایک ایسی کتاب دیکھ رہا ہے، جس پر مختلف رنگوں کی مثلثیں، ڈبے اور دائرے بنے ہوئے ہیں۔ اس کی والدہ کلوئے بُورات نے اسے فرانسیسی زبان میں پوچھا، ''سرخ مثلث کہاں ہے؟‘‘ اینریک نے فوراﹰ فرانسیسی زبان میں جواب دیا، ''یہ ہے۔‘‘ اس کے بعد اینریک کے ہسپانوی والد خوآن کوئرز نے اسے ہسپانوی زبان ہی میں پوچھا، ''پیلا دائرہ کہاں ہے؟‘‘ اس پر اینریک نے انگلی رکھتے ہوئے ہسپانوی زبان میں جواب دیا، ''یہ ہے۔‘‘

پاکستان کے نظام تعلیم میں زبان کی افسوس ناک کہانی

ڈھائی سالہ اینریک اور اس کی آٹھ ماہ کی عمر کی بہن ایلیس ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے نواح میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے ان لاتعداد بچوں میں ہوتا ہے، جو اپنے گھروں میں بیک وقت دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔

Mehrsprachige Erziehung Bilingualität-Koers Bourrat
میڈرڈ کے نواح میں رہنے والے فرانسیسی ہسپانوی خاندان بُورات کوئرز کے لیے بنیادی زبان ہسپانوی ہی ہےتصویر: Privat

کلوئے بُورات اور ان کے شریک حیات خوآن کوئرز آپس میں اکثر ہسپانوی زبان میں بات کرتے ہیں۔ لیکن کلوئے بُورات اپنے بچوں کے ساتھ صرف فرانسیسی زبان بولتی ہیں جبکہ خوآن کوئرز اپنے بیٹے اور بیٹی دونوں سے صرف ہسپانوی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔

سینکڑوں زبانیں ناپیدگی کے خطرے سے دوچار

ماہرین لسانیات اس رویے کو 'ایک فرد، ایک زبان‘ کے طریقہ کار کا نام دیتے ہیں۔ یہ ان کئی ممکنہ طریقوں میں سے ایک ہے، جن کے ذریعے کسی بھی خاندان میں بچوں کی ایک سے زائد زبانیں بولتے اور سکھاتے ہوئے پرورش کی جا سکتی ہے۔

جرمنی میں ترک اور جرمن زبانیں

جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رہنے والی ترک نژاد خاتون ییلیز گوئزمیز اور ان کے خاندان کی سوچ کچھ مختلف ہے۔ ییلیز اور ان کے شوہر دونوں ترکی میں پیدا ہوئے تھے۔ اب ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دونوں سات سالہ میلِسا اور چار سالہ مِیلا سے گھر کے اندر تو ترک زبان بولتے ہیں مگر گھر سے باہر، مثلاﹰ اسکول، کنڈر گارٹن، یا باہر کھیلتے ہوئے، یہ ترک نژاد جوڑا اپنی بیٹیوں سے صرف جرمن زبان میں بات کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ بھی بچوں کی بیک وقت ایک سے زائد زبانوں میں پرورش اور تربیت کا ایک مسلمہ طریقہ کار ہے، جسے 'گھر کے اندر بمقابلہ گھر سے باہر‘ کی حکمت عملی کا نام دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی دیگر طریقے بھی ممکن ہیں۔ مثلاﹰ کسی بھی زبان کے استعمال کو کسی خاص مصروفیت سے مشروط کر دیا جائے، یعنی مثال کے طور پر کھانا کھاتے ہوئے گھر کا ہر فرد عربی زبان بولے گا اور کوئی بھی کھیل کھیلتے ہوئے صرف انگریزی۔

قدیم جرمن اور جدید فرانسیسی کو ’جوڑنے والی‘ پنجابی

ماہرین کا کہنا ہے کہ دن کے کسی حصے میں کوئی خاص زبان بولے جانے کی یہ تخصیص وقت کے لحاظ سے بھی کی جا سکتی ہے۔ یعنی مثال کے طور پر کسی بھی گھرانے میں والدین کا تعلق اگر جرمنی اور چین سے ہو، تو بچے صبح کے وقت تو چینی زبان بولیں اور شام کے وقت صرف جرمن۔

کثیر اللسانیت کا کوئی واحد متفقہ طریقہ نہیں

بچوں کی تربیت اور لسانیات کے ماہرین کے بقول کسی بھی کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی گھرانے میں ماں باپ کی طرف سے بچوں کے ساتھ کب کون سے زبان بولی جائے گی، اس کا تعین چاہے افراد کی سطح پر کیا جائے، دن کے اوقات کی بنیاد پر یا مشترکہ خاندانی مصروفیات کے لحاظ سے، اہم بات یہ ہے کہ ایسے تمام طریقہ ہائے کار میں سے کسی ایک کو بھی واحد متفقہ اور قابل عمل طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Deutschland Einwanderung mehrsprachige Erziehung/Familie Göcmez
جرمن شہر فرینکفرٹ میں رہنے والا ترک نژاد گوئزمیز خاندان: گھر میں ترک زبان اور گھر سے باہر جرمنتصویر: Privat

شمالی جرمن شہر بریمن کی یونیورسٹی آف ایپلائیڈ سائنسز کی پروفیسر وِیبکے شارف ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں، ''بہت سے والدین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بچوں کی بیک وقت ایک سے زائد زبانوں میں پرورش اور تربیت کے لیے بہترین طریقہ کون سا ہے۔ میں انہیں کہتی ہوں کہ اس کے لیے کوئی ایک پرفیکٹ اسٹریٹیجی نہیں ہے۔‘‘

یورپ میں دو سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں

پروفیسر ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں، ''بات دراصل یہ ہے کہ بچوں سے کوئی بھی زبان بولتے ہوئے انہیں اس زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ سیکھنے، بولنے اور سمجھنے کی ترغیب دی جائے۔‘‘ پروفیسر ریتھ فَیلڈ کے بقول ایسے گھرانوں میں والدین کو بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ متنوع موضوعات پر بات چیت کرنا چاہیے تاکہ بچوں کا ذخیرہ الفاظ بھی مسلسل بڑھتا جائے۔

زبانوں کی آمیزش کوئی غلط بات نہیں

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں سے گھر میں بولی جانے والی زبانوں میں سے اگر ایک زبان کے الفاظ دوسری میں ملا کر بھی بولے جائیں، تو یہ بھی کوئی بری یا غلط بات نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے۔

دو زبانیں بولنے والوں میں نسیان کا مرض تاخیر سے، نئی تحقیق

اسی طرح بچوں کو بھی کسی ایک زبان میں جواب دیتے ہوئے اگر کسی ایک کے علاوہ دوسری زبان کے چند الفاظ بھی استعمال کرنا پڑ جائیں، تو یہ بھی درست ہے اور اس کا تدارک یوں کیا جا سکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی اس زبان میں اصلاح کرتے ہوئے ان کا ذخیرہ الفاظ بڑھانے کی کوشش کریں۔

Frankreich | Montessori Schule
گھر میں دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولنے والے بچوں کے لیے زندگی میں کامیابیوں کے نئے امکانات پیدا ہو جاتے ہیںتصویر: Amelie Benoist/BSIP/picture alliance

پروفیسر ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں کہ بچے کوئی بھی زبان سیکھتے ہوئے اس کی گرامر پر قدرتی طور پر اتنی توجہ دینے کے اہل ہوتے ہیں کہ اگر وہ کوئی غلط جملہ کئی مرتبہ بھی سنیں، تو بھی انہیں علم ہو جاتا ہے کہ اسی زبان میں درست گرامر کے ساتھ وہی جملہ کیسے بولا جائے گا۔

پیدائش سے پہلے سنی جانے والی زبانیں اور الفاظ

جرمن سٹی اسٹیٹ بریمن کی یونیورسٹی آف ایپلائیڈ سائنسز کی پروفیسر ریتھ فَیلڈ کہتی ہیں، ''ماہرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بچوں سے بات چیت میں اگر کسی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی بچے بڑی آسانی سے یہ تفریق کر لیتے ہیں کہ کون سا لفظ کس زبان کا ہے۔

متنوع بھارت میں پچاس برس میں دو سو زبانیں ختم

وہ کہتی ہیں، ''بچے مختلف زبانوں اور ان کے الفاظ کے مابین اس تفریق کے اہل تو اسی عرصے میں ہو جاتے ہیں جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہوتے اور رحم مادر میں ہی مختلف زبانوں اور ان کے الفاظ کو سننے کے عادی ہو جاتے ہیں۔‘‘

لسانیاتی ماہرین اور محققین کے مطابق کثیراللسانیت اس لیے بھی بہت سود مند عمل ہے کہ بچپن میں ہی دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہوئے بڑے ہونے والے بچوں کے لیے بچپن، لڑکپن یا جوانی میں دیگر نئی زبانیں سیکھنا آسان تر ہو جاتا ہے۔

م م / ش ر (کاترین ایورٹ)