1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایڈ اور ایڈز میں فرق مشکل ہو گیا ہے

10 جون 2023

یہ انیس سو چورانوے کی بات ہے جب پاکستان میں ایچ آئی وی ( ایڈز ) کے بارے میں عمومی آگہی بڑھانے کے لئے بی بی سی ایجوکیشنل ٹرسٹ نے ایک ریڈیو سیریز کمیشن کی۔

https://p.dw.com/p/4SPwt
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

مجھے یہ جان کے خوشی ہوئی کہ بی بی ( بے نظیر بھٹو ) کی دوسری حکومت ( انیس سو ترانوے ۔ چھیانوے ) نے اس معاملے کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا بلکہ باقاعدہ ایک نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام متعارف کروایا اور صوبائی سطح تک اس کا ڈھانچہ تشکیل دیا۔

تب مجھے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے انچارج ڈاکٹر اقبال احمد نے بتایا کہ پاکستان میں جسمانی مدافعتی نظام چوپٹ کر دینے والے ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد لگ بھگ چالیس ہزار ہے۔ جو گروپ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں، ان میں خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے تارکینِ وطن، اسپتالوں کے اردگرد منڈلانے والے پیشہ ور خون فروش، ایک ہی سرنج بار بار استعمال کرنے والے نشے باز، کثیر جنسی تعلقات رکھنے والے افراد اور غیر محفوظ جنسی عمل میں مبتلا زن و مرد،  ٹرانس جینڈرز اور ٹرانسپورٹرز کمیونٹی ( ڈرائیور، کنڈکٹرز، کلینرز وغیرہ ) شامل ہیں۔

تب ڈاکٹر اقبال احمد نے یہ بھی بتایا تھا کہ پیشہ ور خون دینے والوں کی حوصلہ شکنی اور بیرونِ ملک سے ڈی پورٹ ہونے والے تارکینِ وطن کی لازمی ایچ آئی وی اور ہیپٹائٹس اسکریننگ  کا ایک قانون جلد نافذ ہونے والا ہے۔ ڈسپوز ایبل سرنجز کا سرکاری اسپتالوں میں استعمال لازمی ہو گا۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور پروفیشنل سیکس ورکرز کو طبی معائنے، علاج معالجے اور محفوظ جنسی عمل کی اہمیت کے بارے میں  آگہی بھی ترجیحاتی فہرست میں شامل ہیں۔

آج ڈاکٹر اقبال احمد ( مرحوم ) سے میری ملاقات کو لگ بھگ تیس برس ہو چلے ۔گزشتہ دس برس کے دوران  پاکستان کو ایچ آئی وی کی آگہی اور روک تھام کی مد میں گلوبل فنڈ برائے ٹی بی، ملیریا، ایڈز سے ایک ارب ڈالر کی امداد ملی۔ حکومت ہر سال اس مد میں ایڈز کنٹرول پروگرام کو لگ بھگ دو ارب روپے فراہم کرتی ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے امور صوبائی دائرہِ کار میں منتقل ہو چکے ہیں اور صوبائی حکومتیں اس بارے میں اپنی پالیسیاں وضع کرنے میں آزاد ہیں۔ مگر پلوں کے نیچے سے اتنا پانی گزرنے کے باوجود آج بھی مجال ہے کہ حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی ہو۔

الٹا یہ ہوا ہے کہ پچھلے تیس برس میں آنے والی حکومتیں ایچ آئی وی سے متاثرہ پاکستانیوں کی تعداد ایک عرصے تک چالیس ہزار یا آس پاس ہی بتاتی رہیں۔ پھر متعلقہ سرکاری اداروں نے اعداد و شمار مشتہر کرنے کا تکلف بھی ترک کر دیا۔ ان اعداد و شمار کو بھی غالباً حساس قومی رازوں کے خانے میں ڈال دیا گیا۔

ہمارے دوست اور سرکردہ ہیلتھ رپورٹر وقار بھٹی نے بہت مشکل سے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے، جو تازہ  اعداد و شمار برائے دو ہزار بائیس  نکلوائے، ان کے مطابق  ہر ماہ تقریباً نو سو نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ سالانہ ساڑھے دس ہزار سے اوپر مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر بھی مریضوں کی کل تعداد چھپن ہزار سے آگے نہیں دکھائی جا رہی، ایسا کیوں ہے؟ 

کتنے مریض زیرِ علاج ہیں، کتنے صحت یاب ہو گئے۔کتنوں کا فالو اپ ہوتا ہے، کتنے کوچ کر گئے؟ اس بابت  کوئی ریکارڈ  کہیں کسی ویب سائٹ پر ہے بھی تو میرے علم میں نہیں۔ حالانکہ معلومات کی دستیابی کے قانون کے تحت یہ تفصیلات مفادِ عامہ میں عام آدمی کی امانت ہیں۔

جو قوانین اب سے تیس برس پہلے بننے کی نوید سنائی گئی وہ آج بھی زیرِ تعمیر، زیرِ غور یا نافذ ہونے یا نافذ ہونے کے بعد نتائج کے منتظر ہیں۔ مثلاً گزشتہ برس بیرونی ممالک بالخصوص خلیجی ریاستوں سے چھیالیس ہزار پاکستانی باشندے ڈی پورٹ ہوئے۔ زیادہ تر طبی وجوہات کے سبب نکالے گئے۔ وہ قانوناً اپنی صحت کی کیفیت آرائیول لاؤنج یا سرحدی چوکیوں پر قائم ہیلتھ ڈیسک  کو بتانے کے پابند ہیں مگر ظاہر ہے کہ یہ لازمی کے بجائے رضاکارانہ عمل ہے۔ ڈی پورٹ ہونے والوں کی لازمی بلڈ اسکریننگ کا قانون آج بھی کسی پارلیمانی کمیٹی کی دراز میں گرد چاٹ رہا ہے۔

چنانچہ اگر حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میں چھپن ہزار افراد ایچ آئی وی پازیٹو ہیں تو یہ اعداد و شمار کسی سرکاری اسکریننگ یا طبی سروے کے سبب حاصل نہیں ہوئے بلکہ مریضوں نے اس بارے میں رضاکارانہ تفصیل فراہم کی یا پھر وہ کسی اور بیماری کا ٹیسٹ کرانے گیا تو اچانک یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ دراصل ایچ آئی وی سے متاثر ہے۔

بظاہر صوبائی سطح پر بلڈ بینکس میں صرف اسکرین شدہ خون ذخیرہ کرنے کی اجازت ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں عالمی ادارہِ صحت نے اسکریننگ کٹس بھی فراہم کیں لیکن یہ کٹس ہمیشہ ضرورت سے کم ہی رہیں۔ اس بابت بلڈ بینکس کی نگرانی کا کیا عملی انتظام ہے؟  آج تیس برس بعد بھی سوالیہ نشان ہے۔

دیگر رسک گروپس، جسیے ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ افراد، ٹرانس جنڈرز، کمرشل سیکس ورکرز  وغیرہ کے میڈیکل چیک اپ یا اسکریننگ کے لئے کوئی الگ سے انتظام یا ضابطہ ہے؟ آج تیس برس بعد بھی اس سوال کا قطعی جواب کسی صحت عمل دار کے پاس نہیں۔

جہاں تک قابلِ استعمال سرنجوں کے ذریعے ایچ آئی وی پھیلنے کا معاملہ ہے تو تیس برس قبل حکومت نے دعوی کیا کہ دوبارہ استعمال ہونے والی سرنجوں کی درآمد و تیاری پر مکمل پابندی لگا دی جائے گی۔ مگر دو ہزار انیس میں لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں ایک مقامی چائلڈ اسپیشلسٹ مظفر گھانگرو کو اس وقت دھر لیا گیا، جب اس کے زیرِ علاج بیشتر بچوں کو ایچ آئی وی سے متاثر قرار دیا گیا۔ اس اسکینڈل میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ متاثرین کی نشاندہی ہوئی اور ایک سو سے زائد بچوں کی موت کا ذمہ دار ایچ آئی وی کو قرار دیا گیا۔

رتو ڈیرو سانحے کا ذمہ دار ڈاکٹر ضمانت پر جیل سے باہر ہے اور اس اسکینڈل کا بھانڈا پھوٹنے کے باوجود یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ پاکستان کا طبی شعبہ ری یوز ایبل سرنجوں کے استعمال سے پاک ہو چکا ہے۔ رتو ڈیرو کے بچوں کے غریب والدین میں اتنی سکت نہیں کہ قانونی جنگ لڑ سکیں۔ انہیں تو اپنے جگرگوشوں کا علاج بھی خود کروانا پڑ رہا ہے۔ ریاست نے اس معاملے میں بہت پہلے ہی ہاتھ اٹھا لیے تھے۔

شاید ہمیں کبھی بھی پتہ نہ چل سکے کہ پاکستان میں دراصل ایچ آئی وی کے متاثرین کی اصل تعداد کتنی ہے اور ان میں سے کتنے باقاعدہ کسی کوالیفائیڈ ڈاکٹر  کے پاس یا مستند طبی مرکز میں زیرِ علاج ہیں۔ کیونکہ ایڈز  کے پھیلاؤ سے وابستہ تصورات بیشتر مریضوں کو منظرِ عام پر آنے سے روکتے ہیں اور پھر وہ یہ مرض خاموشی سے گھر کی خواتین اور بچوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔

ان حالات میں ایچ آئی وی کے پنجے کتنے گہرے گڑ چکے ہیں، کون جانے اور کون جاننا چاہے گا؟

یہاں اگر کسی سے پوچھیں بھی کہ آپ ایڈز کے بارے میں کتنا جانتے ہیں تو ممکنہ جواب یہ ہو گا  کہ آخر ہم کب تک دوست ممالک کی ایڈز پر گزارہ کرتے رہیں گے؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔