1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں حجاب کی خلاف ورزی پر مزید سخت سزائیں اور جرمانے

20 ستمبر 2023

ایرانی پارلیمان نے قانونی اصلاحات کے ایک ایسے مسودے کی منظور دے دی ہے، جس کے تحت حجاب کی خلاف ورزی کی صورت میں پندرہ سال تک قید ہو سکتی ہے۔ ان اصلاحات کو ملکی قیادت کا مظاہروں کے خلاف ردعمل قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4WbPr
Iran | Staßenszene in Teheran | Kopftuch
تصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ایران میں حجاب کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی گئی خواتین کے خلاف مستقبل میں اور بھی سخت سزائیں اور جرمانے لاگو کیے جائیں گے۔  سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی اراکین پارلیمنٹ نے بدھ کے روز اس ضمن میں ایک متنازعہ قانون آزمائشی بنیادوں پر تین سال کے لیے نافذ کرنے کی منظوری دی ۔

 اسلامی لباس کے ضابطوں سے متعلق اصلاحات کے اس تازہ ترین ورژن میں لباس سے متعلق شرائط کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ان قانونی اصلاحات میں اسلامی لباس کی خلاف ورزی کی انتہائی صورتوں میں 15 سال تک قید اور 5000  یورو سے زیادہ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

USA | Poster zu den Protesten im Iran
مہسا امینی کی گزشتہ برس ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف ایران سمیت دنیا بھر میں مظا ہرے کیے گئےتصویر: Stephen Shaver/ZUMA Press/picture alliance

اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی خواتین کو ملک بدر بھی کیا جا سکتا ہے۔ لباس کے مقرر کردہ معیار کی خلاف ورزی کی صورت میں مشہور شخصیات کو خاص طور پر سخت سزا دی جائے گی۔ اس حوالے سے ان پر  15 سال تک کی پیشہ ورانہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔  عدلیہ ان مشہور شخصیات کے اثاثوں کا 10واں حصہ بھی ضبط کر سکتی ہے۔

گزشتہ برس مہاسا امینی نامی ایک کرد خاتون کی حجاب کی مبینہ خلاف ورزی پر گرفتاری اور پھر ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ان  ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

شوبز سے تعلق رکھنے والی بہت سی نامور ملکی شخصیات نے ان مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔ حکومت نے اس بل کو اپنے مقررہ وقت سے ایک ماہ قبل ہی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ ساتھ ہی ایک سیاسی چال کے طور پر پارلیمنٹ کی بھرپور موجودگی میں ووٹنگ کے بجائے ایک کمیشن نے ان اصلاحات کی منظوری دی۔

اب ان مجوزہ اصلاحات کو حتمی منظوری کے لیے قدامت پسند علماء پر مشتمل گارڈین کونسل کے نگران ادارے میں پیش کیا جائے گا۔

اس پیش رفت کو خواتین کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر علما اور سیاسی قیادت کا ردعمل سمجھا جا رہا ہے۔  ان مظاہروں کے بعد ملک میں روزمرہ زندگی لوٹ آئی ہے تاہم  بڑے شہروں میں بے شمار خواتین ہیڈ اسکارف کی ضرورت کی مخالفت کرتی ہیں۔

دوسری جانب سخت گیر حلقے مہینوں سے اسکارف کی متعدد خلاف ورزیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

ش ر ⁄ ا ا (ڈی پی اے)

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے