1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ایران جوہری بم کا انشقاقی مادہ بارہ دن میں تیار کرسکتا ہے'

1 مارچ 2023

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران انشقاقی مادہ تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے۔ تاہم انہیں یقین نہیں ہے کہ اس نے جوہری بم بنانے کی ٹیکنالوجی میں مکمل مہارت حاصل کرلی ہے۔

https://p.dw.com/p/4O67h
Iran IR 6 Zentrifugen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/IRIB

امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کے روز کہا کہ ایران  تقریباً 12 دنوں میں ایک جوہری بم کے لیے ضروری انشقاقی مادہ (Fissile Material) تیار کر سکتا ہے، جو کہ سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے نفاذ کے دوران ممکنہ اندازے کے مطابق ایک سال کی مدت سے کم ہے۔

دفاعی پالیسی کے نائب وزیر کولن کاہل نے یہ بات ایوان نمائندگان کی ایک سماعت کے دوران اس وقت بتائی جب ایک ریپبلیکن قانون ساز نے یہ سوال کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے)، جو ایران جوہری معاہدہ کے نام سے معروف ہے، کو بحال کرنے کی کوشش کیوں کی۔

امریکی محکمہ دفاع میں تیسری پوزیشن کے حامل کاہل کا کہنا تھا، "کیونکہ ہمارے جے سی پی او اے کے چھوڑنے کے بعد سے ایران کی جوہری پیش رفت قابل ذکر رہی ہے۔ سن 2018 میں جب سابقہ انتظامیہ نے جے سی پی او اے سے خود کو الگ کرلینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت ایران کو ایک بم کی تیاری کے لیے ضروری انشقاقی مادہ تیار کرنے میں تقریباً 12ماہ لگتے تھے۔ لیکن اب اس میں تقریباً 12دن لگیں گے۔"

ایران نے ساٹھ فیصد افزودہ یورینیم کی تیاری شروع کردی

کاہل نے مزید کہا،"اور اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کو سفارتی طورپر حل کرسکتے ہیں اور ان (ایران) کے جوہری پروگرام میں رکاوٹیں ڈال سکتے ہیں۔ اور یہ کسی دوسرے متبادل سے بہتر ہے۔ لیکن اس وقت تو جے سی پی او اے پر برف پڑی ہوئی ہے۔"

جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ ٹھوس ضمانت دے، ایران

امریکی حکام بارہا یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اگر ایران نے جوہری بم بنانے کا فیصلہ کرلیا تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔ لیکن کاہل نے پہلی مرتبہ اس میں لگنے والے وقت کا واضح طور پر ذکر کیا ہے۔

امریکی حکام کا خیال ہے کہ ایران انشقاقی مادہ تیار کرنے کے قریب تر ہوگیا ہے لیکن انہیں یقین نہیں کہ اس نے جوہری بم بنانے کی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی ہے۔

سن 2015 کا ایران جوہری معاہدہ

خیال رہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔ جس کے بعد تہران نے اپنے جوہری پروگرام پر دوبارہ کام شروع کر دیا۔

امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری بم تیار کرسکتا ہے۔ تاہم ایران اس طرح کے کسی عزائم سے انکار کرتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ پچھلے دو برسوں سے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نےکہا کہ اس کے معائنہ کاروں نے ایران کے فردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کے ذرات 83.7 فیصد افزودہ پائے ہیں
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نےکہا کہ اس کے معائنہ کاروں نے ایران کے فردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کے ذرات 83.7 فیصد افزودہ پائے ہیںتصویر: Kazem Ghane/AFP/Getty Images

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا بیان

جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی ا ے ای اے) نے منگل کے روز کہا کہ اس کے معائنہ کاروں نے ایران کے فردو جوہری پلانٹ میں یورینیم کے ذرات 83.7 فیصد افزودہ پائے ہیں۔

جوہری بم بنانے کے لیے 90 فیصد افزودہ یورینیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے کہا کہ ان ذرات کے ماخذ کا پتہ لگانے کے سلسلے میں بات چیت ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس موجود یہ یورینیم افزودگی 2015 کے معاہدے میں طے شدہ ہدف سے 18 فیصد زیادہ ہے۔

ایران جوہری بم بنا سکتا ہے، لیکن فی الحال اس پر فیصلہ نہیں کیا، ایرانی اعلیٰ رہنما

دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے یورینیم افزودگی کے دوران ایسا غیر ارادی طور پر ہو گیا ہو۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ جرمنی اور اسرائیل  "ہم ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے حالیہ خبروں پرتشویش میں متحد ہیں
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ جرمنی اور اسرائیل "ہم ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے حالیہ خبروں پرتشویش میں متحد ہیںتصویر: Odd Andersen/AFP

جرمنی کا اظہار تشویش

ایران کی طرف سے کوئی بھی وضاحت، بہر حال اس کے علاقائی حریف اسرائیل کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ حال ہی میں اسرائیل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے والے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پہلے ہی تہران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں۔

دریں اثناء منگل کے روز جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک اوراسرائیل دونوں ایران پر84 فی صد افزودہ یورینیم کے الزامات پر فکرمند ہیں۔

’ایران کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ "ہم ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے حالیہ خبروں پرتشویش میں متحد ہیں۔ ''اتنی اعلیٰ سطح کی افزودگی کا کوئی قابل قبول سویلین جواز نہیں ہے۔"

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)