1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انگلیاں فگار اپنی

23 نومبر 2023

قالین بافی کے مراکز میں آنے والے بیشتر بچوں کے مسائل ایک سے ہیں۔ تقریباﹰ ہر بچے کا خاندان کم از کم آٹھ سے دس افراد پر مشتمل ہے۔ یہ بچے اپنا بچپن قالین بافی سیکھ کر آنے والے اچھے دنوں کی امید پر نچھاور کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ZLL7
Sanober Nazeer
تصویر: privat

نومبر کے وسط میں موسم سرما کی پہلی بارش ہی کوئٹہ کے درجہ حرارت کو گرا دیتی ہے، جس کی وجہ سے سردی کی شدت میں ایک دم اضافہ ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کی خشک سردیاں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں۔ تیرہ سالہ آمنہ بی بی کو اس موسم میں قالین بُننے کے لیے صبح سویرے اٹھ کر قالین بافی کے مرکز جانا بہت بھاری پڑتا ہے۔

آمنہ بی بی اپنے محلہ کی تین سہیلیوں سمیت کوئٹہ کی مشہور زمانہ سریاب روڈ کے عقب میں واقع ایک گنجان آبادی والے علاقے کی رہائشی ہے، جہاں روزوشب غربت، عسرت اور جہالت کا تماشہ جاری رہتا ہے۔ غربت کی دلدل میں دھنسے ہونے کے باوجود خاندان کے مرد حضرات کا دو تین شادیاں کرنا اور درجن بھر بچے کرنا کوئی اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ وجہ ظاہر ہے شعور و ادراک کا ناپید ہونا، دقیانوسی اور فرسودہ روایات پر تفاخر کے ساتھ کاربند رہنا ہے۔

ان سارے حالات میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ خواتین کا ہے۔ بےشک وہ بیوی، بہن، بیٹی یا ماں ہو۔ دوسرے قابل ترس وہ کم عمر بچے بچیاں ہیں جو پیدا تو کر دیے جاتے ہیں لیکن ان کا وجود تمام عمر ہونے نہ ہونے کے بیچ ہی معلق رہتا ہے حتی کہ اپنے گھر میں ہی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت نے قالین بافی کی صنعت کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے اورکوئٹہ شہر کے گردونواح میں درجنوں قالین بافی کے مراکز قائم کیے ہیں۔ ہر مرکز  میں باقاعدہ پانچ سے چھ افراد کا عملہ بھی بھرتی کیا گیا، جن میں قالین بافی کی دو اساتذہ بھی شامل  ہیں۔ ان مراکز میں ایسے علاقوں کے بچے بچیوں کو قالین کی بُنائی سکھائی جاتی ہے، جو اسکول جانا تو دور کی بات، دو وقت پیٹ بھر کھانا کھانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

ان مراکز کا زنانہ اسٹاف ایسے بدحال خاندانوں کے گھر گھر جا کر انہیں اپنے بچوں کو، جو دن بھر گلی محلوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، قالین بافی کے مراکز میں بھیجنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ اس ہنر کو سیکھ کر کم از کم اپنی کفالت کر سکیں۔ 

آمنہ بی بی اپنے محلے کی دوستوں گل بخت، مہربانو اور سکینہ بلوچ کے ہمراہ روز اپنے مرکز میں صبح نو بجےموجود ہوتی ہے۔ تینوں بچیاں کم و بیش ہم عمر ہی ہیں سوائے گل بخت کے جو پچھلے چار سال سے اس مرکز میں قالین بافی کا فن سیکھ رہی ہے۔ وہ غالباً سولہ سال کی ہے اور اب اس کے ہاتھ بہت پھرتی سے بنائی کرتے ہیں اور اس کے کام میں نفاست واضح نظر آتی ہے۔ چاروں بچیوں نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی نہ ہی وہ پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ ان مراکز میں بیشتر بچے مکمل ان پڑھ ہیں۔

عام طور پر اس عمر کی بچیوں کے چہرے کومل، جلد ملائم اور قد کاٹھ اٹھتا ہوا ہوتا ہے لیکن سخت اور مخدوش حالات نے ان بچیوں کے جسموں کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے اور چہروں پر بچپن کی شوخی کے بجائے ایک عجیب سی اداسی اور خاموشی نے لے لی ہے۔

ہماری ریاست کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ اس ملک کے سب سے بڑے اور معدنیات سے مالامال صوبے کے بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونے کے بجائے ان کے ہاتھ  قالین باندھنے پر مجبور ہیں۔ جن انگلیوں میں قلم ہوناچاہیے تھا وہ انگلیاں زخموں سے چور ہیں۔ 

آمنہ بی بی ان سب میں چھوٹی ہے۔ اس کا اس مرکز میں پہلا سال ہے۔ سال کی پہلی خشک سردی میں اس کی ہاتھوں کی  پتلی نازک انگلیاں فریم پر بندھے قالین کے تنے ہوئے دھاگوں کوکاٹتے ہوئے چھل کر زخمی ہو چکی ہیں اور خاص اس موسم میں آمنہ بی بی کی انگلیوں کے زخم خون رسنے کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا باعث بن گئے ہیں۔ دیگر بچیاں چونکہ پہلے سے قالین بافی کر رہی ہیں تو وہ ایسے زخموں کو سہنے کی عادی ہو چکی ہیں یا شاید انہیں اندازہ ہے کہ اس تکلیف سے فرار ممکن نہیں۔

ہاتھ سے بُنے قالین کا کوئی ثانی نہ ہونے کے باوجود یہ صنعت اب روبہ زوال ہے۔ مشینی قالین سستے داموں میسر ہونے اور حکومت کی عدم توجہی اس صنعت سے وابستہ ہنرمندوں کے لیے لمحہ تشویش ہے۔

آمنہ بی بی اور دیگر بچیوں سے ان کی اجرت کے بارے میں جب پوچھا گیا تو یہ جان کر شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑاکہ ایسے نفیس اور دیدہ زیب قالین جن کی بُنائی میں مہینے درکار اور انگلیاں زخمی کرنی پڑتی ہیں ایک ماہ کی محنت کا معاوضہ  فقط دو ہزار روپے؟

ان دو ہزار روپے کو ذرا بائیس دن میں تقسیم کر کے دیکھیے۔ اس مہنگائی کے عفریت میں معصوم بچوں کو دی جانے والی اجرت صرف نوے روپے یومیہ ؟

اور وہ بھی ماہانہ ادا نہیں کی جاتی بلکہ کبھی چھ ماہ  بعد یا سال کے آخر میں یکمشت ادائیگی کی جاتی ہے۔ اسی بنا پر بچے بچیاں کچھ ہی عرصے بعد تنخواہ نہ ملنے پر مایوس ہو کر ان مراکز میں آنا ترک کر دیتے ہیں۔ بچیوں سے جب پوچھا کہ آپ حکومت سے کتنی تنخواہ کے طلبگار ہیں تو ساری بچیاں سنی ان سنی کرتے ہوئے سر جھکائےادھ بُنے قالین کو باندھنے میں ہی منہمک رہیں۔

ان کی قالین بافی کی ایک استاد نے بتایا کہ بارہا ہم اساتذہ اور ان بچیوں نے انتظامیہ کو اپنی اجرت بڑھانے کی استدعا کی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہر کچھ عرصے بعد بچے کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور ہمیں پھر دوڑ دوڑ کر ان کے گھروں میں جاکر منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ واپس مرکز آنا شروع کریں۔

قالین بافی کی استاد کو یہ روداد سناتے ہوئے بار سانس چڑھ جاتی اور کھانسی کا دورہ سا پڑ جاتا تھا۔

استفسار پر اس نے بتایا کہ اسے سانس کی یہ بیماری کوئی دو سال پہلے لاحق ہوئی ہے اور ایسے سردی کے خشک موسم میں یہ کیفیت اتنی حاوی ہوجاتی ہے کہ اس کے حلق سے کئی کئی دنوں تک آواز نہیں نکل پاتی۔ ڈاکٹر کے مطابق اسے قالین بافی کی وجہ سے ہی دمے کا مرض لاحق ہوا ہے۔

قالین کی بُنائی کے دوران ریشمی یا اونی دھاگوں یا سوت سے اڑتا رُواں اور ذرات فضا میں ہر طرف بکھرےنظر آتےہیں، جو سانس کے ذریعے وہاں پر موجود تمام کاریگر بچوں اور اساتذہ کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر دمہ اورسانس کی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے عملاً کوئی اقدامات ان مراکز میں نظر نہیں آتے حتی کہ دوران بُنائی کاریگر بچیوں اور عملہ کے چہروں پر ماسک تک موجود نہیں ہوتے۔

قالین بافی کے کاریگر بچے بچیوں اور مراکز کے عملہ کو باقاعدہ آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ خصوصاً قالین کی بُنائی کے دوران تمام عملے اور کاریگروں کو ماسک پہننے پر سختی سے عمل کروانا ان کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔

قالین بافی میں مہارت کے لیے مسلسل چار سے پانچ سال لگ کر کام سیکھنا اور کرنا پڑتا ہے جس کے بعد ایک کاریگراس قابل ہوتا ہے کہ قالین بن سکے اور ایک سے دو ماہ کے عرصے میں قالین تیار کر پائے ورنہ ایک قالین بنانے میں کئی مہینے یا سال تک لگ جاتا ہے۔

کم اجرت کی وجہ سے بچے جب کام چھوڑ دیتے ہیں تو مرکز کو کئی بار بند کرنا پڑ جاتا ہے۔ کورونا کی وبا نے بھی اس صنعت پر بڑے منفی اثرات مرتب کیے تھے۔ دو سال تمام مراکز بند رہے، جس سے عملہ اور کاریگر بچے بھی بیروزگار ہوئے اور مرکز میں رکھی مشینیں اور قالین باندھے کے لیے استعمال ہونے والے لوہے کے بنے فریم بھی زنگ آلود ہوگئے تھے۔ دو سوا دو سال بند رہنے کے بعد عملے کے پرزور اصرار پر حکومت نے ان مراکز کو ازسر نو دوبارہ بحال کیا۔ اب ان اداروں نے قالین بافی کے ساتھ آس پاس رہنے والی بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے کے لیے کلاسوں کا بھی انتظام کیا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے لیکن

حکومت کو ایسے اداروں میں قالین بافی یا سلائی کڑھائی کے کاریگر بچوں  بچیوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کابھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ہنر کے ساتھ ساتھ بچے کم از کم  لکھنا پڑھنا بھی سیکھ سکیں۔

حکومت کو اگر واقعی پاکستان میں  قالین بافی کی صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا مقصود ہے تو ایسے  مراکز کا دائرہ مزید وسیع کرنا پڑے گا۔ مراکز کو  جدید سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاریگر بچوں کی اجرت میں اضافہ کرنا بے حد ضروری ہے ورنہ بچوں میں محنت کا صلہ نہ ملنے پر یہ ہنر سیکھنے میں دلچسپی نہیں رہے گے۔

ہماری ریاست اور  حکومتیں ان پچھتر سال میں ملک کے تقریباً ایک تہائی بچوں کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے تو کم از کم ایسے اداروں کے بجٹ کو ہی بڑھا دیں تاکہ کم از کم  ان غریب بچوں  کو ایک ہنر مند شہری تو بنایا جا سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

DW Urdu Blogerin  Snober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔